صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
59. بَابُ بَيْعِ الْمُزَايَدَةِ:
باب: نیلام کرنے کے بیان میں۔
وَقَالَ عَطَاءٌ: أَدْرَكْتُ النَّاسَ لَا يَرَوْنَ بَأْسًا بِبَيْعِ الْمَغَانِمِ فِيمَنْ يَزِيدُ.
‏‏‏‏ اور عطاء نے کہا کہ میں نے دیکھا لوگ مال غنیمت کے نیلام کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔
حدیث نمبر: 2141
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ الْمُكْتِبُ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:" أَنَّ رَجُلًا أَعْتَقَ غُلَامًا لَهُ عَنْ دُبُرٍ فَاحْتَاجَ، فَأَخَذَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَنْ يَشْتَرِيهِ مِنِّي؟ فَاشْتَرَاهُ نُعَيْمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بِكَذَا وَكَذَا، فَدَفَعَهُ إِلَيْهِ".
ہم سے بشیر بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں حسین مکتب نے خبر دی، انہیں عطاء بن ابی رباح نے اور انہیں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ ایک شخص نے اپنا ایک غلام اپنے مرنے کے بعد کی شرط کے ساتھ آزاد کیا۔ لیکن اتفاق سے وہ شخص مفلس ہو گیا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے غلام کو لے کر فرمایا کہ اسے مجھ سے کون خریدے گا۔ اس پر نعیم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اسے اتنی اتنی قیمت پر خرید لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلام ان کے حوالہ کر دیا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2513  
´مدبر غلام کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم میں سے ایک شخص نے غلام کو مدبر بنا دیا، اس کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی مال نہ تھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیچ دیا، اور قبیلہ بنی عدی کے شخص ابن نحام نے اسے خریدا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب العتق/حدیث: 2513]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مدبر سے مراد وہ غلام ہے جسے اس کا مالک یہ کہہ دے تو میرے مرنے کے بعد آزاد ہے۔ (فتح الباری: 531/4)

(2)
جب تک آقا زندہ ہے مدبر غلام ہی رہتا ہے اور اس پر غلاموں والے سب احکام لاگو ہوتے ہیں۔

(2)
مجبوری کی حالت مدبر غلام کی اس مشروط آزادی کو کالعدم قراردیا جا سکتا ہےجیسا کہ اس حدیث میں ہےکہ آزاد کرنے والے کے پاس کوئی مال نہیں تھا۔
صیحح بخاری میں ہے وہ محتاج تھا۔ (صیحح البخاري، البیوع، باب بیع المزايدۃ، حدیث: 2141)
  اس کے علاوہ مقروض بھی تھا۔ (فتح الباري، البیوع، باب بیع المدبر بحواله اسما عیلیي)

(4)
آزاد کرنے والے صحابی کا نام ابو مذکور بیان کیا جاتا ہے۔ (سنن أبي داود، العتق، باب فی بیع المدبر، حدیث: 3955)

(5)
خریدنے والے صحابی کا نام حضرت نعیم بن عبداللہ تھا۔ (صیحح البخاري، البیوع، باب بیع المزايدۃ حدیث: 2141)
انھی کو ابن نحام بھی کہاجاتا ہے کیونکہ رسول اللہﷺنے جنت میں ان کے کھنکھارنے کی آواز سنی تھی۔ (حاشہ صیحح المسلم از محمد فواد عبدالباقی الایمان باب جوازبیع المدبر)

(6)
اس غلام کا نام یعقوب تھا۔ (سنن أبي داود، العتق باب فی بیع المدبرۃ، حدیث: 997)

(7)
غلام کی قیمت آٹھ سو درہم ادا كى گئی۔ (صیحح البخاري، الأحکام، باب بیع الإمام علی الناس أموالھم وضیاعھم، حدیث: 7186)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2513   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 653  
´بیع کی شرائط اور بیع ممنوعہ کی اقسام`
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما ہی سے مروی ہے کہ ہم میں سے کسی شخص نے اپنا غلام مدبر کر دیا۔ اس غلام کے سوا اس کے پاس اور کوئی مال نہیں تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غلام کو بلوایا اور اسے فروخت کر دیا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 653»
تخریج:
«أخرجه البخاري، البيوع، باب بيع المزايدة، حديث:2141، ومسلم، الأيمان، باب جواز بيع المدبر، حديث:997، بعد حديث:1668.»
تشریح:
1. صحیح بخاری وغیرہ میں ہے کہ آپ نے اسے آٹھ سو درہم میں فروخت کر دیا اور حضرت نعیم بن عبداللہ بن نحام نے اسے خرید لیا۔
دیکھیے: (صحیح البخاري‘ کفارات الأیمان‘ حدیث:۶۷۱۶) 2. سنن نسائی کی روایت میں ہے کہ وہ مقروض تھا‘ اس لیے آپ نے اسے فروخت کیا تاکہ اس کا قرض اتار دیا جائے۔
دیکھیے: (سنن النسائي‘ آداب القضاء‘ حدیث:۵۴۲۰) 3.اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مدبر غلام کو ضرورت و حاجت کے وقت فروخت کرنا جائز ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ ‘ اہل حدیث اور عام فقہاء اس کی مطلقاً فروخت کے قائل ہیں۔
4. حدیث سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ضرورت کے موقع پر فروخت کرنا جائز ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 653   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1219  
´مدبر غلام کے بیچنے کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انصار کے ایک شخص نے ۱؎ اپنے غلام کو مدبر ۲؎ بنا دیا (یعنی اس سے یہ کہہ دیا کہ تم میرے مرنے کے بعد آزاد ہو)، پھر وہ مر گیا، اور اس غلام کے علاوہ اس نے کوئی اور مال نہیں چھوڑا۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیچ دیا ۳؎ اور نعیم بن عبداللہ بن نحام نے اسے خریدا۔ جابر کہتے ہیں: وہ ایک قبطی غلام تھا۔ عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما کی امارت کے پہلے سال وہ فوت ہوا۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1219]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس شخص کا نام ابومذکورانصاری تھا اورغلام کا نام یعقوب۔

2؎:
مدبروہ غلام ہے جس کا مالک اس سے یہ کہہ دے کہ میرے مرنے کے بعد تو آزاد ہے۔

3؎:
بعض روایات میں ہے کہ وہ مقروض تھا اس لیے آپ نے اسے بیچا تاکہ اس کے ذریعہ سے اس کے قرض کی ادائیگی کردی جائے اس حدیث سے معلوم ہواکہ مدبرغلام کوضرورت کے وقت بیچنا جائزہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1219   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3955  
´مدبر (یعنی وہ غلام جس کو مالک نے اپنی موت کے بعد آزاد کر دیا ہو) کو بیچنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنے غلام کو اپنے مرنے کے بعد آزاد کر دیا اور اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور مال نہ تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بیچنے کا حکم دیا تو وہ سات سویا نو سو میں بیچا گیا۔ [سنن ابي داود/كتاب العتق /حدیث: 3955]
فوائد ومسائل:
غلام کے بارے میں یہ وصیت کرنا کہ یہ میری وفات کے بعد آزاد ہوگا بالکل مباح اور جائز ہے۔
مگر وارثوں کے حالات کے پیش نظر اگر وہ بالکل ہی مفلوک الحال ہوں توایسی وصیت کو فسخ بھی کیا جاسکتا ہے۔
قاضی اور حاکم کو اختیار ہے کہ وہ اس کو فسخ کردیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3955   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2141  
2141. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہےکہ ایک آدمی نے غلام کو اپنے مرنے کے بعد آزادی کا اختیار سونپ دیا مگر وہ شخص کچھ مدت کے بعد محتاج ہوگیا تو نبی ﷺ نے غلام کو پکڑکر فرمایا: اس غلام کو مجھ سے کون خریدتا ہے؟ حضرت نعیم بن عبد اللہ ؓنے کسی قدر مال کے عوض اسے خرید لیا، پھر آپ نے وہ قیمت اس کے مالک کو دے دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2141]
حدیث حاشیہ:
نعیم بن عبداللہ ؓ نے آٹھ سو درہم کا لیا، جب آنحضرت ﷺ نے فرمایا، اس کو کون خریدتا ہے، تو یہ نیلام ہی ہوا۔
اور اسماعیلی کا اعتراض دفع ہو گیا کہ حدیث سے نیلام ثابت نہیں ہوتا کیوں کہ اس میں یہ نہیں ہے کہ لوگوں نے مول بڑھانا شروع کیا، اور مدبر کی بیع کا جواز نکلا، امام شافعی ؒ اور ہمارے امام احمد بن حنبل ؒ کا بھی یہی قول ہے، لیکن امام ابوحنیفہ ؒ اور امام مالک ؒ کے نزدیک مدبر کی بیع درست نہیں ہے۔
تفصیل آرہی ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
لما ان تقدم في الباب قبله النهي عن السوم أراد أن یبین موضع التحریمة منه و قد أوضحته في الباب الذي قبله و ورد في البیع فیمن یزید حدیث أنس أنه صلی اللہ علیه وسلم باع حلسا و قدحا و قال من یشتري هذا الحلس و القدح فقال رجل أخذتهما بدرهم فقال من یزید علی درهم فأعطاہ رجل درهمین فباعهما منه أخرجه أحمد و أصحاب السنن مطولا و مختصراً و اللفظ للترمذي و قال حسن و کان المصنف أشار بالترجمة إلی تضعیف ما أخرجه البزار من حدیث سلیمان بن وهب سمعت النبي صلی اللہ علیه وسلم ینهی عن بیع المزایدة فإن في إسنادہ ابن لهیعة وهو ضعیف۔
(فتح)
چونکہ پچھلے باب میں بھاؤ پر بھاؤ بڑھانے سے نہی گزر چکی ہے لہٰذا مصنف نے چاہا کہ حرمت کی وضاحت کی جائے اور میں اس سے پہلے باب میں اس کی وضاحت کر چکا ہوں۔
یہاں حضرت امام بخاری ؒ نے نیلام کا بیان شروع فرمایا اوراس کا جواز ثابت کیا۔
اور اس بیع کے بارے میں انس ؓ سے ایک اور حدیث بھی مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک پرانا ٹاٹ اور ایک پیالہ نیلام فرمایا۔
اور ایک آدمی نے ان کی بولی ایک درہم لگائی۔
آپ ﷺ کے دوبارہ اعلان پر دوسرے آدمی نے دو درہموں کو بولی لگادی۔
اور آپ ﷺ نے ہر دو چیزیں اس کو دے دیں۔
حضرت امام بخاری ؒ نے یہاں اشارہ فرمایا ہے کہ مسند بزار میں سفیان بن وہب کی روایت سے جو حدیث موجود ہے جس میں نیلام سے ممانعت وارد ہے وہ حدیث ضعیف ہے۔
اس کی سند میں ابن لہیعہ ہے جو ضعیف ہے۔
حضرت عطاءبن ابی رباح مشہور ترین تابعی ہیں۔
کنیت ابومحمد ہے جلیل القدر فقیہ ہیں۔
آخر عمر میں نابینا ہو گئے تھے۔
امام اوزاعی ؒ کا قول ہے کہ ان کی وفات کے وقت ہر شخص کی زبان پر ان کا ذکر خیر تھا۔
اور سب لوگ ان سے خوش تھے۔
امام احمد بن حنبل ؒ نے فرمایا کہ اللہ نے علم کے خزانوں کا مالک حضرت عطاءبن ابی رباحؒ کو بنایا جو حبشی تھے۔
علم اللہ کی دین ہے جسے چاہے وہ دے دے۔
سلمہ بن کہیل نے کہا، عطاء، طاؤس، مجاہد ؒ وہ بزرگ ہیں جن کے علم کی غرض و غایت صرف خدا کی ذات تھی۔
88 سال کی عمر میں 115ھ میں وفات پائی۔
رحمه اللہ
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2141   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2141  
2141. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہےکہ ایک آدمی نے غلام کو اپنے مرنے کے بعد آزادی کا اختیار سونپ دیا مگر وہ شخص کچھ مدت کے بعد محتاج ہوگیا تو نبی ﷺ نے غلام کو پکڑکر فرمایا: اس غلام کو مجھ سے کون خریدتا ہے؟ حضرت نعیم بن عبد اللہ ؓنے کسی قدر مال کے عوض اسے خرید لیا، پھر آپ نے وہ قیمت اس کے مالک کو دے دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2141]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان سے اس روایت کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نیلامی کی بیع سے منع کیا ہے۔
(کتاب الإسناد عن الزوائد البرار: 483/1)
بعض حضرات نے اعتراض کیا ہے کہ پیش کردہ حدیث میں نیلامی کا ذکر نہیں ہے لیکن رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد کہ اسے کون خریدتا ہے؟یہی نیلامی کے ثبوت کےلیے کافی ہے۔
بہرحال نیلامی اگر قیمت بڑھانے کے لیے جائے تو منع ہے۔
اگر خریدنے کا ارادہ ہوتو نیلامی جائز ہے۔
مذکورہ حدیث میں اس کا واضح ثبوت ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2141