سنن ابن ماجه
كتاب اللباس -- کتاب: لباس کے متعلق احکام و مسائل
23. بَابُ : الْبَسْ مَا شِئْتَ مَا أَخْطَأَكَ سَرَفٌ أَوْ مَخِيلَةٌ
باب: جو چاہو پہنو بس اسراف اور تکبر نہ ہو (یعنی فضول خرچی اور گھمنڈ سے ہٹ کر ہر لباس پہنو)۔
حدیث نمبر: 3605
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , أَنْبَأَنَا هَمَّامٌ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ جَدِّهِ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كُلُوا وَاشْرَبُوا , وَتَصَدَّقُوا , وَالْبَسُوا , مَا لَمْ يُخَالِطْهُ إِسْرَافٌ , أَوْ مَخِيلَةٌ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھاؤ پیو، صدقہ و خیرات کرو، اور پہنو ہر وہ لباس جس میں اسراف و تکبر (فضول خرچی اور گھمنڈ) کی ملاوٹ نہ ہو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8773، ومصباح الزجاجة: 1257)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/اللباس 1 (تعلیقا) سنن النسائی/الزکاة 66 (2560)، مسند احمد (2/181، 182) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: ضرورت سے زیادہ مال خرچ کرنے کو اسراف کہتے ہیں،جوحرا م ہے، قرآن میں ہے: «ولا تسرفوا إنه لا يحب المسرفين» (سورة الأعراف: 31) اسراف نہ کرو، بیشک اللہ تعالی اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا دوسری جگہ ہے: «إن المبذرين كانوا إخوان الشياطين وكان الشيطان لربه كفورا» (سورة الإسراء: 27) بے جا خرچ کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے اور خلاف شرع کام میں ایک پیسہ بھی صرف کرنا اسراف میں داخل ہے جیسے پتنگ بازی، کبوتر بازی اور آتش بازی وغیرہ وغیرہ

قال الشيخ الألباني: حسن
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3605  
´جو چاہو پہنو بس اسراف اور تکبر نہ ہو (یعنی فضول خرچی اور گھمنڈ سے ہٹ کر ہر لباس پہنو)۔`
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھاؤ پیو، صدقہ و خیرات کرو، اور پہنو ہر وہ لباس جس میں اسراف و تکبر (فضول خرچی اور گھمنڈ) کی ملاوٹ نہ ہو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3605]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
  اسلام ترک دنیا اور رہبانیت کی دعوت نہیں دیتا بلکہ کمائی اور خرچ کی ناجائز راہوں سے روکتا ہے۔

(2)
اپنی ذات پر، بیوی بچوں پر، والدین اور عزیز و اقارب پر خرچ کرنا اور ان کی جائز ضروریات پوری کرنا نیکی ہے۔

(3)
اسراف اور فضول خرچی کا مطلب جائز مقام پر ناجائز حد تک خرچ کرنا ہے۔
سادگی مسلمان کی شان ہے۔

(4)
ناجائز مقام پر تھوڑا خرچ بھی گناہ ہے اور تبذیز میں شامل ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿إِنَّ المُبَذِّر‌ينَ كانوا إِخوانَ الشَّياطينِ ۖ وَكانَ الشَّيطانُ لِرَ‌بِّهِ كَفورً‌ا ﴾  (بنی اسرائیل 17: 27)
بے شک بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔
اور شیطان اپنے رب کی بہت زیادہ نا شکری کرنے والا ہے۔

(5)
تھوڑے مہمانوں کے لئے بہت زیادہ کھانے تیار کر لینا اور پھر انہیں ضائع کردینا بھی تبذیز میں شامل ہے۔
اسی طرح اپنا مال وقت ضائع کرنے والی بے فائدہ تفریح پر خرچ کرنا بھی اس میں شامل ہے۔

(6)
اسراف و تبذیز عام طور پر دوسروں پر برتری کے اظہار کے لئے کیا جاتا ہے جو خود ایک گناہ ہے۔
ایسی چیزوں پر خرچ ہونے والی رقم سے غریبوں کی مدد کی جائے تو دنیوی اور اخروی فوائد حاصل ہوں گے۔

(7)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔
وہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ مذکورہ روایت کو امام بخاری نے بھی کتاب اللباس سے پہلے معلق بیان کیا ہے مزید لکھتے ہیں کہ اس کے تخلیق التعلیق وغیرہ میں موقوف شواہد موجود ہیں لہٰذا اس بات سے اور دیگر محققیق کی بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل ہے۔
مزید تفصیل کے لئے دیکھیے: (الموسوعة الحديثية مسند الإمام أحمد: 11 /94، 95 وسنن ابن ماجة بتحقيق الدكتور بشار عواد، رقم: 3605، وهداية الرواة: 4/ 217، 218)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3605