سنن ابن ماجه
كتاب اللباس -- کتاب: لباس کے متعلق احکام و مسائل
47. بَابُ : رُكُوبِ النُّمُورِ
باب: چیتے کی کھال سواری پر رکھ کر بیٹھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3656
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , عَنْ أَبِي الْمُعْتَمِرِ , عَنْ ابْنِ سِيرِينَ , عَنْ مُعَاوِيَةَ , قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَنْهَى عَنْ رُكُوبِ النُّمُورِ".
معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چیتوں کی کھال پر سواری کرنے سے منع فرماتے تھے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/اللباس 43 (4129)، (تحفة الأشراف: 11439)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/93، 94) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ یہ زینت اور فخر کی چیز ہے، اور اس لئے بھی کہ یہ غیر مسلموں کا لباس ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3656  
´چیتے کی کھال سواری پر رکھ کر بیٹھنے کا بیان۔`
معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چیتوں کی کھال پر سواری کرنے سے منع فرماتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3656]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
چیتے کی کھال گھوڑے کی کاٹھی پر ڈال کر اس پر سوار ہونا منع ہے کیونکہ اس میں تکبر کا اظہار ہے اور غیر مسلم عجمیوں کی عادت ہے۔

(2)
درندوں کے شکار کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ان کا گوشت نہیں کھایا جاتا۔
اور محض اظہار فخر کے لیے ان کی کھالیں حاصل کرنے کےلیے انہیں قتل کرنا ظلم ہے۔

(3)
جس درندے سے لوگوں کی جان و مال کو خطرہ ہو اسے قتل کرنا جائز ہے جیسے بعض شیر و غیرہ آدم خور بن جاتے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3656   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4239  
´عورتوں کے سونا پہننے کا بیان۔`
معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چیتوں کی کھال پر سواری کرنے اور سونا پہننے سے منع فرمایا ہے مگر جب «مقطّع» یعنی تھوڑا اور معمولی ہو ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابوقلابہ کی ملاقات معاویہ رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الخاتم /حدیث: 4239]
فوائد ومسائل:
سونے کے بارے میں تمام روایات کے مجموعے سے چند باتیں واضح ہو تی ہیں۔
اول یہ کہ اس کا جواز تو ضرور ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں اس کے استعمال کی جو صورتیں ہیں وہ سخت محلِ نظر ہیں، مثلاََ زیورات بنانے اور استعمال کرنے کا شوق تو عام ہے، لیکن اس کی زکوۃ ادا کرنے کی طرف توجہ بہت کم ہے، چند فیصد عورتیں ہی اس کا اہتمام کرتی ہیں، ظاہر بات ہے کہ اس طرح کا زیور جہنم ہی کا ایندھن ہے اَعَاذَنَا الله منه ثانیاََ اصحابِ حیثیت لوگوں کی خواتین کو نئے نئے زیورات بنانے کا اتنا شوق ہوتا ہے کہ وہ خاندان کی ہر تقریب اور شادی پر کپڑوں کی طرح زیورات کا بھی نیا سیٹ تیار کروانا ضروری سمجھتی ہیں، اسی لیئے کئی کئی سو تولہ سونا زیورات کی شکل میں اُمراء کے گھروں میں پڑا ہے، جس کی مجوموعی مالیت اربوں سے متجاوز ہوکر شائد کھربوں میں پہنچتی ہو۔
یوں قوم کا اتنا بڑا سرمایہ کسی مصرف میں نہیں آتا۔
اگر کم از کم اتنے برے سرمائے کی زکوۃ ہی نکالی جاتی رہے تو غریب عوام کو بہت فائدہ ہو سکتا ہے اور اس کے انجماد کے مضرات کچھ کم ہو سکتے ہیں۔
ثالثاََ شادی کے موقعے پر حسبِ استطاعت زیورات کا بنانا ضروری سمجھ لیا گیا ہے اور اس کے بغیر شادی کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔
اس تصور نے بھی کمتر حیثیت کے لوگوں کو مصیبت میں ڈالا ہوا ہے۔
ان تمام مفاسد کا حل یہی ہے جو اس حدیث میں اور دیگر روایات میں بیان ہوا ہے کہ سونے کے استعمال کو کم سے کم کیا جائے چند تولہ سونا (ساڑھے سات تولہ سے کم) زکوۃ سے بھی مستثنی ہے۔
جس کے پاس ساڑھے سات تولہ یا اس کے زیادہ ہو وہ زکوۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرے، اس طرح اسے شادی کے لیئے ضروری نہ سمجھا جائے اور اس کے لیئے بھی جہاد کیا جائے۔
وما علينا إلا البلاغ
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4239