سنن ابن ماجه
كتاب الأدب -- کتاب: اسلامی آداب و اخلاق
18. بَابُ : الرَّجُلِ يُقَالُ لَهُ كَيْفَ أَصْبَحْتَ
باب: آدمی سے کہا جائے: صبح کیسے کی؟
حدیث نمبر: 3710
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ , حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُسْلِمٍ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ , عَنْ جَابِرٍ , قَالَ: قُلْتُ: كَيْفَ أَصْبَحْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" بِخَيْرٍ , مِنْ رَجُلٍ لَمْ يُصْبِحْ صَائِمًا , وَلَمْ يَعُدْ سَقِيمًا".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے صبح کیسے کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے نہ آج روزہ رکھا، نہ بیمار کی عیادت (مزاج پرسی) کی خیریت سے ہوں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2380، ومصباح الزجاجة: 1293) (حسن)» ‏‏‏‏ (سند میں عبداللہ بن مسلم ضعیف راوی ہے، لیکن ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاہد اور دوسری احادیث کی وجہ سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: تراجع الالبانی 100 و صحیح الأدب المفرد: 878- 1133)

وضاحت: ۱؎: یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی جناب میں اپنی تقصیر ظاہر کی باوجود اس کے کہ میں نے روزہ نہیں رکھا بیمار پرسی نہیں کی، لیکن مالک کا احسان ہے کہ میری صبح خیریت کے ساتھ اس نے کرائی، سبحان اللہ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باوجود کثرت عبادت، ریاضت، قرب الٰہی اور گناہوں سے پاک اور صاف ہونے کے اپنی تقصیر کا اقرار اور مالک کی نعمتوں کا اظہار کرتے تھے، اور کسی بندے کی کیا مجال ہے جو اپنی عبادت و طاعت اور تقویٰ پر نازاں ہو، یا اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم سے ہم کو کھلاتا اور پلاتا ہے، اور خیریت اور عافیت سے ہماری صبح اور شام گزارتا ہے، اے اللہ! ہم تیرے احسان اور نعمت کا شکر جتنا شکر کریں سب کم ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف