سنن ابن ماجه
كتاب الأدب -- کتاب: اسلامی آداب و اخلاق
35. بَابُ : الأَلْقَابِ
باب: القاب کا بیان۔
حدیث نمبر: 3741
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ , عَنْ دَاوُدَ , عَنْ الشَّعْبِيِّ , عَنْ أَبِي جَبِيرَةَ بْنِ الضَّحَّاكِ , قَالَ: فِينَا نَزَلَتْ مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ وَلا تَنَابَزُوا بِالأَلْقَابِ سورة الحجرات آية 11،" قَدِمَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَالرَّجُلُ مِنَّا لَهُ الِاسْمَانِ وَالثَّلَاثَةُ , فَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رُبَّمَا دَعَاهُمْ بِبَعْضِ تِلْكَ الْأَسْمَاءِ" , فَيُقَالُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّهُ يَغْضَبُ مِنْ هَذَا , فَنَزَلَتْ وَلا تَنَابَزُوا بِالأَلْقَابِ سورة الحجرات آية 11.
ابوجبیرہ بن ضحاک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ «ولا تنابزوا بالألقاب» ہم انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہمارے پاس (مدینہ) تشریف لائے تو ہم میں سے ہر ایک کے دو دو، تین تین نام تھے، بسا اوقات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ان کا کوئی ایک نام لے کر پکارتے، تو آپ سے عرض کیا جاتا: اللہ کے رسول! فلاں شخص فلاں نام سے غصہ ہوتا ہے، تو اس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: «ولا تنابزوا بالألقاب» کسی کو برے القاب سے نہ پکارو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأدب 71 (4962)، سنن الترمذی/تفسیر القرآن 49 (3268)، (تحفة الأشراف: 11882)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/69، 260، 5/380) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی برے القاب جن سے آدمی ناخوش ہو، اس سے مت پکارو کیونکہ یہ اپنے مسلمان بھائی کو ایذا دینا ہے، بعضوں نے کہا یہ آیت صفیہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں اتری، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، اور عرض کیا: یا رسول اللہ! لوگ مجھ کو کہتے ہیں: اے یہودیہ، یہودیوں کی بیٹی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے یہ کیوں نہیں کہا: میرے باپ ہاروں علیہ السلام ہیں، اور میرے چچا موسیٰ علیہ السلام، اور میرے شوہر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اللہ کی رحمت اترے ان پر اور سلام ہو سب پر۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3741  
´القاب کا بیان۔`
ابوجبیرہ بن ضحاک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ «ولا تنابزوا بالألقاب» ہم انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہمارے پاس (مدینہ) تشریف لائے تو ہم میں سے ہر ایک کے دو دو، تین تین نام تھے، بسا اوقات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ان کا کوئی ایک نام لے کر پکارتے، تو آپ سے عرض کیا جاتا: اللہ کے رسول! فلاں شخص فلاں نام سے غصہ ہوتا ہے، تو اس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: «ولا تنابزوا بالألقاب» کسی کو برے القاب سے نہ پکارو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3741]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  کسی کو ایسے نام یا لقب سے نہیں پکارنا چاہیے جو اسے نا گوار ہو۔

(2)
مسلمان کو دوسرے مسلمان کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے اور بلا وجہ ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جس سے اس کے جذبات مجروح ہوں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3741   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3268  
´سورۃ الحجرات سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابوجبیرہ بن ضحاک کہتے ہیں کہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کے دو دو تین تین نام ہوا کرتے تھے، ان میں سے بعض کو بعض نام سے پکارا جاتا تھا، اور بعض نام سے پکارنا اسے برا لگتا تھا، اس پر یہ آیت «ولا تنابزوا بالألقاب» لوگوں کو برے القاب (برے ناموں) سے نہ پکارو (الحجرات: ۱۱)، نازل ہوئی۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3268]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
لوگوں کو برے القاب (برے ناموں) سے نہ پکارو (الحجرات: 11)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3268   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4962  
´القاب کا بیان۔`
ابوجبیرہ بن ضحاک کہتے ہیں کہ ہمارے یعنی بنو سلمہ کے سلسلے میں یہ آیت نازل ہوئی «ولا تنابزوا بالألقاب بئس الاسم الفسوق بعد الإيمان» ایک دوسرے کو برے ناموں سے نہ پکارو، ایمان کے بعد برے نام سے پکارنا برا ہے (الحجرات: ۱۱) ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور ہم میں کوئی شخص ایسا نہیں تھا جس کے دو یا تین نام نہ ہوں، تو آپ نے پکارنا شروع کیا: اے فلاں، تو لوگ کہتے: اللہ کے رسول! اس نام سے نہ پکاریئے، وہ اس نام سے چڑھتا ہے، تو یہ آیت نازل ہوئی «ولا تنابزوا بالألقاب» ۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4962]
فوائد ومسائل:
معلوم ہوا ہے کہ برے برے لقب یا نام رکھنا حرام اور ناجائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4962