سنن ابن ماجه
كتاب الأدب -- کتاب: اسلامی آداب و اخلاق
42. بَابُ : مَا كُرِهَ مِنَ الشِّعْرِ
باب: برے اور نا پسندیدہ اشعار کا بیان۔
حدیث نمبر: 3759
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ , حَدَّثَنَا حَفْصٌ , وَأَبُو مُعَاوِيَةَ , وَوَكِيعٌ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَأَنْ يَمْتَلِئَ جَوْفُ الرَّجُلِ قَيْحًا , حَتَّى يَرِيَهُ خَيْرٌ لَهُ , مِنْ أَنْ يَمْتَلِئَ شِعْرًا" , إِلَّا أَنَّ حَفْصًا لَمْ يَقُلْ:" يَرِيَهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیماری کے سبب آدمی کے پیٹ کا مواد سے بھر جانا اس سے زیادہ بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھرا ہو ۱؎۔ حفص نے «یریہ» کا لفظ ذکر نہیں کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأدب 92 (6155)، صحیح مسلم/الشعر (2257)، سنن الترمذی/الأدب 71 (2851)، (تحفة الأشراف: 12364، 12468، 12523)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/288، 355، 391، 480) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی ایسے اشعار سے جس میں کفر، فسق یا مبالغہ و کذب کے مضامین ہوں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2851  
´پیٹ کا مواد سے بھرا ہونا (گندے) اشعار سے بھرے ہونے سے بہتر ہے۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی شخص کے پیٹ کا خون آلود مواد سے بھر جانا جسے وہ گلا، سڑا دے، یہ کہیں بہتر ہے اس سے کہ اس کے پیٹ (و سینے) میں (کفریہ شرکیہ اور گندے) اشعار بھرے ہوئے ہوں۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الأدب/حدیث: 2851]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
پچھلے باب کی احادیث اور اس باب کی احادیث میں تطبیق یہ ہے کہ اشعار اگر تو حید وسنت،
اخلاق حمیدہ،
وعظ ونصیحت،
پندونصائح اور حکمت ودانائی پر مشتمل ہوں تو ان کا کہنا،
پڑھنا سب جائز ہے،
اور اگر کفریہ،
شرکیہ،
بدعت اور خلاف شرع باتوں پر مشتمل ہوں یا بازاری اور گندے اشعار ہوں تو ان کو اپنے دل وماغ میں داخل کرنا (یا ذکر کرنا) پیپ اورمواد سے زیادہ مکروہ اور نقصان دہ ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2851   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5009  
´شعر کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کسی کے لیے اپنا پیٹ پیپ سے بھر لینا بہتر ہے اس بات سے کہ وہ شعر سے بھرے، ابوعلی کہتے ہیں: مجھے ابو عبید سے یہ بات پہنچی کہ انہوں نے کہا: اس کی شکل (شعر سے پیٹ بھرنے کی) یہ ہے کہ اس کا دل بھر جائے یہاں تک کہ وہ اسے قرآن، اور اللہ کے ذکر سے غافل کر دے اور جب قرآن اور علم اس پر چھایا ہوا ہو تو اس کا پیٹ ہمارے نزدیک شعر سے بھرا ہوا نہیں ہے (اور آپ نے فرمایا) بعض تقریریں جادو ہوتی ہیں یعنی ان میں سحر کی سی تاثیر ہوتی ہے، وہ کہتے ہیں: اس کے معنی گویا یہ ہیں کہ وہ اپنی تقریر میں اس مقام ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 5009]
فوائد ومسائل:
شعروشاعری بیان کا ایک فطری اور لازمی حصہ ہے۔
مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دینی مزاج شاعری پسند نہیں ہے۔
خیرالقرون میں شعر وشعراء سے اشاعت حق اور دفاع اسلام کا کام ضرور لیا گیا ہے، مگر بطور فن اس کی حوصلہ افزائی ہرگزنہیں کی گئی۔
لہذا کوئی صاحب علم شعروشاعری کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لے۔
اور قرآن اور اللہ کے ذکر سے غافل ہو رہے تو انتہائی مذموم ہے۔
البتہ حد اعتدال میں رہتے ہوئے اپنے اس ذوق اور فن سے اشاعت حق اور ابطال باطل کا فریضہ سرانجام دے تو بلاشبہ کارخیر ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5009