سنن ابن ماجه
كتاب الأدب -- کتاب: اسلامی آداب و اخلاق
54. بَابُ : فَضْلِ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ
باب: لا الہٰ الا اللہ کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 3795
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ , عَنْ مِسْعَرٍ عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ , عَنْ الشَّعْبِيِّ , عَنْ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ , عَنْ أُمِّهِ سُعْدَى الْمُرِّيَّةِ , قَالَتْ: مَرَّ عُمَرُ بِطَلْحَةَ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: مَا لَكَ مُكتَئِبًا أَسَاءَتْكَ إِمْرَةُ ابْنِ عَمِّكَ؟ قَالَ: لَا , وَلَكِنْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" إِنِّي لَأَعْلَمُ كَلِمَةً لَا يَقُولُهَا أَحَدٌ عِنْدَ مَوْتِهِ , إِلَّا كَانَتْ نُورًا لِصَحِيفَتِهِ , وَإِنَّ جَسَدَهُ وَرُوحَهُ لَيَجِدَانِ لَهَا رَوْحًا عِنْدَ الْمَوْتِ" , فَلَمْ أَسْأَلْهُ حَتَّى تُوُفِّيَ , قَالَ: أَنَا أَعْلَمُهَا هِيَ الَّتِي أَرَادَ عَمَّهُ عَلَيْهَا , وَلَوْ عَلِمَ أَنَّ شَيْئًا أَنْجَى لَهُ مِنْهَا لَأَمَرَهُ.
سعدیٰ مریہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عمر رضی اللہ عنہ طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس گزرے، تو انہوں نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ میں تم کو رنجیدہ پاتا ہوں؟ کیا تمہیں اپنے چچا زاد بھائی (ابوبکر رضی اللہ عنہ) کی خلافت گراں گزری ہے؟، انہوں نے کہا: نہیں، لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: میں ایک بات جانتا ہوں اگر کوئی اسے موت کے وقت کہے گا تو وہ اس کے نامہ اعمال کا نور ہو گا، اور موت کے وقت اس کے بدن اور روح دونوں اس سے راحت پائیں گے، لیکن میں یہ کلمہ آپ سے دریافت نہ کر سکا یہاں تک کہ آپ کی وفات ہو گئی، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس کلمہ کو جانتا ہوں، یہ وہی کلمہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا (ابوطالب) سے مرتے وقت پڑھنے کے لیے کہا تھا، اور اگر آپ کو اس سے بہتر اور باعث نجات کسی کلمہ کا علم ہوتا تو وہی پڑھنے کے لیے فرماتے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5021، 10676، ومصباح الزجاجة: 1324)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/161) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچا سے جو الفت و محبت تھی، اور جس طرح آپ انہیں آخری وقت میں قیامت کے دن کے عذاب سے بچانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے، اور کلمہ «لا إله إلا الله» کہنے کا حکم دیتے رہے، اس سے بہتر کوئی دوسرا کلمہ نہیں ہو سکتا جسے مرتے وقت کوئی اپنی زبان سے ادا کرے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3795  
´لا الہٰ الا اللہ کی فضیلت۔`
سعدیٰ مریہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عمر رضی اللہ عنہ طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس گزرے، تو انہوں نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ میں تم کو رنجیدہ پاتا ہوں؟ کیا تمہیں اپنے چچا زاد بھائی (ابوبکر رضی اللہ عنہ) کی خلافت گراں گزری ہے؟، انہوں نے کہا: نہیں، لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: میں ایک بات جانتا ہوں اگر کوئی اسے موت کے وقت کہے گا تو وہ اس کے نامہ اعمال کا نور ہو گا، اور موت کے وقت اس کے بدن اور روح دونوں اس سے راحت پائیں گے، لیکن میں یہ کلمہ آپ سے دریافت نہ کر سکا یہاں تک کہ آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3795]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
 
(1)
حضرت طلحہ عبید اللہ ؓعشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔
یہ حضرت ابوبکر ؓ کے خاندان (بنو تمیم)
سے تعلق رکھتے تھے۔

(2)
صحابہ کرام ؓکے دل میں اللہ تعالیٰ کا اتنا خوف تھا کہ جنت کی خوشخبری ملنے کے باوجود ڈرتے تھے۔
یہ خوف ایمان کا جزء ہے جس طرح اللہ کی رحمت کی امید ایمان کا جزء ہے۔ 2۔
مومن کی نظر میں دنیا کی حکومت اور عہدے کی نسبت آخرت کی نجات زیادہ اہم ہے۔

(3)
دین کا علم بہت قیمتی ہے۔
صحابیء رسول کو ایک مسئلہ معلوم نہ کر سکنے پر بہت غم ہوا۔

(5)
کلمہ توحید کا اقرار اور اس پر ایمان ہی نجات کی بنیادی شرط ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3795