صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
73. بَابُ إِذَا اشْتَرَطَ شُرُوطًا فِي الْبَيْعِ لاَ تَحِلُّ:
باب: اگر کسی نے بیع میں ناجائز شرطیں لگائیں (تو اس کا کیا حکم ہے)۔
حدیث نمبر: 2169
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِيَ جَارِيَةً فَتُعْتِقَهَا، فَقَالَ أَهْلُهَا: نَبِيعُكِهَا عَلَى أَنَّ وَلَاءَهَا لَنَا، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: لَا يَمْنَعُكِ ذَلِكَ،" فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے چاہا کہ ایک باندی کو خرید کر آزاد کر دیں، لیکن ان کے مالکوں نے کہا کہ ہم انہیں اس شرط پر آپ کو بیچ سکتے ہیں کہ ان کی ولاء ہمارے ساتھ رہے۔ اس کا ذکر جب عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شرط کی وجہ سے تم قطعاً نہ رکو۔ ولاء تو اسی کی ہوتی ہے جو آزاد کرے۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2915  
´ولاء (آزاد کیے ہوئے غلام کی میراث) کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک لونڈی خرید کر آزاد کرنا چاہا تو اس کے مالکوں نے کہا کہ ہم اسے اس شرط پر آپ کے ہاتھ بیچیں گے کہ اس کا حق ولاء ۱؎ ہمیں حاصل ہو، عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس بات کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا: یہ خریدنے میں تمہارے لیے رکاوٹ نہیں کیونکہ ولاء اسی کا ہے جو آزاد کرے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الفرائض /حدیث: 2915]
فوائد ومسائل:

آقا اور اس کی زیر ملکیت غلام کے مابین تعلق (ولاء) کہلاتا ہے۔
غلام کو آزاد کر دینے کے بعد بھی یہ تعلق قائم رہتا ہے۔
آزاد کرنے والے کو مولیٰ (معتق) (ت کے نیچے زیریعنی آزاد کرنے والا) اور آزاد شدہ کو مولیٰ (معتق) (ت پرزبر یعنی آزاد کیا ہوا) کہتے ہیں۔
اور ان کے مابین نسبت وقرابت کو ولاء کہتے ہیں۔
اور اس تعلق کو کسی طور تبدیل فروخت یا ہبہ نہیں کیا جاسکتا۔


غیر شرعی شرطیں لغو محض ہوتی ہیں۔
اور ان کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2915   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2169  
2169. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ نے ایک لونڈی خرید کر اسے آزاد کرنے کا ارادہ کیا لیکن اس کے مالکوں نے کہا: ہم اس شرط پر یہ لونڈی آپ کو فروخت کرتے ہیں کہ اس کی ولا ہمارے لیے ہو۔ حضرت عائشہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کاذکر کیا تو آپ نے فرمایا: یہ شرط تمھیں خریدنے سے منع نہ کرے کیونکہ ولا کا حق دار وہ ہوتا ہے جو اسے آزاد کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2169]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر خریدوفروخت کرتے وقت کوئی ناجائز شرط رکھ دی جائے تو شرط باطل لیکن بیع صحیح ہے۔
اس حدیث میں ایک اشکال ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کا حضرت بریرہ ؓ کو خریدنا، اس کے مالکوں کے لیے ولاء کی شرط کرنا،اس شرط کے باعث بیع کا فاسد ہونا،فروخت کرنے والوں کو اندھیرے میں رکھنا، ان کے لیے شرط کرنا جو ان کےلیے صحیح نہ ہو اور نہ انھیں کچھ حاصل ہی ہو،ایسے حالات میں رسول اللہ ﷺ کا اسے خریدنے کی اجازت دینا یہ تمام معاملات اشکالات کا باعث ہیں۔
بعض علماء نے تو ان اشکالات کی وجہ سے اس حدیث کا انکار کردیا ہے لیکن جمہور علماء کے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے۔
بعض حضرات نے اس شرط کرنے کی یہ تاویل کی ہے کہ ان پر شرط لگادی جائے کہ والاءتمھاری نہیں ہوگی۔
کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ انھیں ولاء کا حکم بتادیا جائے کہ ولاء اس کی ہے جو آزاد کرنے والا ہے۔
بعض حضرات اس شرط کو زجرو توبیخ پر محمول کرتے ہیں کیونکہ جب بریرہ ؓ کے مالکان نے ولاء کی شرط پر اصرار کیا اور رسول اللہ ﷺ کے حکم کی مخالفت کی تو آپ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا:
اس شرط کی پروا نہ کرو کیونکہ یہ شرط باطل اور مردود ہے۔
ہمارا رجحان اس آخری تاویل کی طرف ہے۔
والله أعلم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2169