سنن ابن ماجه
كتاب الفتن -- کتاب: فتنوں سے متعلق احکام و مسائل
9. بَابُ : مَا يَكُونُ مِنَ الْفِتَنِ
باب: (امت محمدیہ میں) ہونے والے فتنوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 3951
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ , وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ رَجَاءٍ الْأَنْصَارِيِّ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادِ بْنِ الْهَادِ , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا صَلَاةً فَأَطَالَ فِيهَا , فَلَمَّا انْصَرَفَ , قُلْنَا: أَوْ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَطَلْتَ الْيَوْمَ الصَّلَاةَ , قَالَ:" إِنِّي صَلَّيْتُ صَلَاةَ رَغْبَةٍ وَرَهْبَةٍ , سَأَلْتُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لِأُمَّتِي ثَلَاثًا فَأَعْطَانِي اثْنَتَيْنِ , وَرَدَّ عَلَيَّ وَاحِدَةً , سَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ غَيْرِهِمْ فَأَعْطَانِيهَا , وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُهْلِكَهُمْ غَرَقًا فَأَعْطَانِيهَا , وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يَجْعَلَ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ فَرَدَّهَا عَلَيَّ".
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن بہت لمبی نماز پڑھائی، پھر جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے (یا لوگوں نے) عرض کیا: اللہ کے رسول! آج تو آپ نے نماز بہت لمبی پڑھائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، آج میں نے رغبت اور خوف والی نماز ادا کی، میں نے اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کے لیے تین باتیں طلب کیں جن میں سے اللہ تعالیٰ نے دو عطا فرما دیں اور ایک قبول نہ فرمائی، میں نے اللہ تعالیٰ سے یہ طلب کیا تھا کہ میری امت پر اغیار میں سے کوئی دشمن مسلط نہ ہو، تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اسے دیا، دوسری چیز میں نے اللہ تعالیٰ سے یہ طلب کی تھی کہ میری امت کو غرق کر کے ہلاک نہ کیا جائے، اللہ تعالیٰ نے اسے بھی مجھے دیا، تیسری یہ دعا کی تھی کہ میری امت آپس میں جنگ و جدال نہ کرے، تو اللہ تعالیٰ نے میری یہ دعا قبول نہ فرمائی۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11326، ومصباح الزجاجة: 1388)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/240) (صحیح) (تراجع الألبانی: رقم: 406)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3951  
´(امت محمدیہ میں) ہونے والے فتنوں کا بیان۔`
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن بہت لمبی نماز پڑھائی، پھر جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے (یا لوگوں نے) عرض کیا: اللہ کے رسول! آج تو آپ نے نماز بہت لمبی پڑھائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، آج میں نے رغبت اور خوف والی نماز ادا کی، میں نے اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کے لیے تین باتیں طلب کیں جن میں سے اللہ تعالیٰ نے دو عطا فرما دیں اور ایک قبول نہ فرمائی، میں نے اللہ تعالیٰ سے یہ طلب کیا تھا کہ میری امت پر اغیار میں سے کوئی دشمن مسلط نہ ہو، تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اسے دیا، دوسری چیز می۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3951]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رسواللہﷺ اپنی امت کے لیے ہر قسم کی بھلائی کی خواہش رکھتے تھے۔
ہمیں بھی چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ سے انتہائی محبت رکھیں کثرت سے درود پڑھیں زیادہ سے زیادہ آپ کا اتباع کریں اور بدعات سے اجتناب کریں۔

(2)
دشمنوں کے تسلط سے غیر مسلموں کا ایسا غلبہ مراد ہے کہ مسلمان دنیا سے ختم ہوجائیں۔

(3)
اس دعا کی قبولیت اس طرح ظاہر ہے کہ دور نبوت سے آج تک کوئی زمانہ ایسا نہیں آیا جب دنیا میں کسی نہ کسی مقام پر مسلمانوں کی آزاد حکومت قائم نہ ہو علاوہ ازیں جن غیر مسلموں نے مسلمانوں کے علاقوں پر قبضہ کیا اللہ تعالی نے انھی میں سے اسلام قبول کرنے والے اور اس کا دفاع کرنے والے پیدا فرمادیے۔
 
(4)
غرق ہونے کے عذاب سے مراد ایسی قدرتی آفت ہے جس سے سب مسلمان تباہ ہوجائیں مثلاً:
سیلاب، زلزلہ اور آندھی وغیرہ۔
امت میں عذاب اس طرح نہیں آئیں گے جس طرح گزشتہ امتوں پر یہ عذاب آئے کہ حق کے مخالفین کو مکمل طور پر ختم کردیا گیا۔

(5)
مسلامنوں کا آپس میں جنگ وجدل اچھی بات نہیں۔

(6)
نبیﷺ مختار کل نہیں تھے۔
اللہ تعالی نے آپ کی بعض دعائیں قبول نہیں فرمائیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3951