سنن ابن ماجه
كتاب الفتن -- کتاب: فتنوں سے متعلق احکام و مسائل
9. بَابُ : مَا يَكُونُ مِنَ الْفِتَنِ
باب: (امت محمدیہ میں) ہونے والے فتنوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 3952
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ شَابُورَ , حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ بَشِيرٍ , عَنْ قَتَادَةَ أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ , عَنْ أَبِي قِلَابَةَ الْجَرْمِيِّ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ , عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ , عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" زُوِيَتْ لِي الْأَرْضُ حَتَّى رَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا , وَأُعْطِيتُ الْكَنْزَيْنِ الْأَصْفَرَ أَوِ الْأَحْمَرَ , وَالْأَبْيَضَ يَعْنِي: الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ , وَقِيلَ لِي: إِنَّ مُلْكَكَ إِلَى حَيْثُ زُوِيَ لَكَ , وَإِنِّي سَأَلْتُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ ثَلَاثًا: أَنْ لَا يُسَلِّطَ عَلَى أُمَّتِي جُوعًا فَيُهْلِكَهُمْ بِهِ عَامَّةً , وَأَنْ لَا يَلْبِسَهُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَهُمْ بَأْسَ بَعْضٍ , وَإِنَّهُ قِيلَ لِي إِذَا قَضَيْتُ قَضَاءً فَلَا مَرَدَّ لَهُ , وَإِنِّي لَنْ أُسَلِّطَ عَلَى أُمَّتِكَ جُوعًا فَيُهْلِكَهُمْ فِيهِ , وَلَنْ أَجْمَعَ عَلَيْهِمْ مِنْ بَيْنَ أَقْطَارِهَا حَتَّى يُفْنِيَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا وَيَقْتُلَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا , وَإِذَا وُضِعَ السَّيْفُ فِي أُمَّتِي فَلَنْ يُرْفَعَ عَنْهُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ , وَإِنَّ مِمَّا أَتَخَوَّفُ عَلَى أُمَّتِي أَئِمَّةً مُضِلِّينَ , وَسَتَعْبُدُ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي الْأَوْثَانَ , وَسَتَلْحَقُ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي بِالْمُشْرِكِينَ , وَإِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ دَجَّالِينَ كَذَّابِينَ قَرِيبًا مِنْ ثَلَاثِينَ , كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ , وَلَنْ تَزَالَ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الْحَقِّ مَنْصُورِينَ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ , حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" , قَالَ أَبُو الْحَسَنِ: لَمَّا فَرَغَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ , قَالَ: مَا أَهْوَلَهُ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے لیے زمین سمیٹ دی گئی حتیٰ کہ میں نے اس کے مشرق اور مغرب کو دیکھ لیا، پھر اس کے دونوں خزانے زرد یا سرخ اور سفید (یعنی سونا اور چاندی بھی) مجھے دئیے گئے ۱؎ اور مجھ سے کہا گیا کہ تمہاری (امت کی) حکومت وہاں تک ہو گی جہاں تک زمین تمہارے لیے سمیٹی گئی ہے، اور میں نے اللہ تعالیٰ سے تین باتوں کا سوال کیا: پہلی یہ کہ میری امت قحط (سوکھے) میں مبتلا ہو کر پوری کی پوری ہلاک نہ ہو، دوسری یہ کہ انہیں ٹکڑے ٹکڑے نہ کر، تیسری یہ کہ آپس میں ایک کو دوسرے سے نہ لڑا، تو مجھ سے کہا گیا کہ میں جب کوئی حکم نافذ کر دیتا ہوں تو وہ واپس نہیں ہو سکتا، بیشک میں تمہاری امت کو قحط سے ہلاک نہ کروں گا، اور میں زمین کے تمام کناروں سے سارے مخالفین کو (ایک وقت میں) ان پر جمع نہ کروں گا جب تک کہ وہ خود آپس میں اختلاف و لڑائی اور ایک دوسرے کو مٹانے اور قتل نہ کرنے لگیں، لیکن جب میری امت میں تلوار چل پڑے گی تو وہ قیامت تک نہ رکے گی، مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ خوف گمراہ سربراہوں کا ہے، عنقریب میری امت کے بعض قبائل بتوں کی پرستش کریں گے، اور عنقریب میری امت کے بعض قبیلے مشرکوں سے مل جائیں گے، اور قیامت کے قریب تقریباً تیس جھوٹے دجال پیدا ہوں گے جن میں سے ہر ایک کا دعویٰ یہ ہو گا کہ وہ اللہ کا نبی ہے، اور میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا، اور ہمیشہ ان کی مدد ہوتی رہے گی، اور جو کوئی ان کا مخالف ہو گا وہ ان کو کوئی ضرور نقصان نہیں پہنچا سکے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آ جائے ۲؎۔ ابوالحسن ابن القطان کہتے ہیں: جب ابوعبداللہ (یعنی امام ابن ماجہ) اس حدیث کو بیان کر کے فارغ ہوئے تو فرمایا: یہ حدیث کتنی ہولناک ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 53 (1920)، الفتن 5 (2889) إلی قولہ: ''بعضھم بعضاً'' مع فقرة الطائفة المنصورة، سنن ابی داود/الفتن 1 (4252)، سنن الترمذی/الفتن 14 (2176)، (تحفة الأشراف: 2100)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/278، 284)، سنن الدارمی/المقدمة 22 (205) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس سے روم و ایران کے خزانے مرادہیں۔
۲؎: یعنی قیامت قائم ہو، اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کھلا معجزہ ہے، آپ نے فرمایا: مجھ کو زمین کے پورب اور پچھم دکھلائے گئے اور ایسا ہی ہوا کہ اسلام پورب یعنی ترکستان اور تاتار کی ولایت سے لے کر پچھم یعنی اندلس اور بربر تک جا پہنچا لیکن اتری اور دکھنی علاقوں میں اسلام کا رواج نہیں ہوا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3952  
´(امت محمدیہ میں) ہونے والے فتنوں کا بیان۔`
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے لیے زمین سمیٹ دی گئی حتیٰ کہ میں نے اس کے مشرق اور مغرب کو دیکھ لیا، پھر اس کے دونوں خزانے زرد یا سرخ اور سفید (یعنی سونا اور چاندی بھی) مجھے دئیے گئے ۱؎ اور مجھ سے کہا گیا کہ تمہاری (امت کی) حکومت وہاں تک ہو گی جہاں تک زمین تمہارے لیے سمیٹی گئی ہے، اور میں نے اللہ تعالیٰ سے تین باتوں کا سوال کیا: پہلی یہ کہ میری امت قحط (سوکھے) میں مبتلا ہو کر پوری کی پوری ہلاک نہ ہو، دوسری یہ کہ انہیں ٹکڑے ٹکڑے نہ کر، تیسری یہ کہ آپس می۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3952]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
زمین سمیٹے جانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ لے لیے زمین اس طرح منکشف فرمائی کہ آپ نے اس کے مشرقی اور مغربی علاقے بیک وقت ملاحظہ فرمالیے۔

(2)
جہاں تک زمین سمیٹی گئی ہےاس میں اشارہ ہے کہ زمین کے بعض حصے اس کشف میں شامل نہیں تھے۔
ممکن ہے کہ صرف وہ علاقے دکھائیں گئے ہوں جہاں تک ایک وقت میں اسلامی حکومت قائم ہونا مقدور ہو یعنی اسلامی سلطنت اپنی وسیع ترین حدود میں دکھائی گئی۔
اور یہ بھی ممکن ہے کہ پوری زمین دکھائی گئی ہو کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں پوری دنیا میں اسلام غالب ہوگا کیونکہ وہ جزیہ قبول نہیں کریں گے بلکہ ان کا مطالبہ ہوگا کہ یا تو مسلمان ہوجاؤ یا تو مرنے کے لیےتیار ہوجاؤ۔

(3)
نبیﷺ کو سونے چاندی کے خزانے دیے جانے کا مطلب امت کا ان خزانوں پر قابض اور متصرف ہونا ہےجیسے خلافت راشدہ کے دور میں قیصر وکسریٰ کی سلطنتیں ملیا میٹ ہوئیں اور ان کے خزانے مسلمانوں کے قبضے میں آئے۔

(4)
تمام امت کا بھوک سے ہلاک نہ ہونے کا مطلب یہ ہے نہیں کہ ان پر جزوی طور پر ایسا عذاب نہیں آئے گا بلکہ امت کے جرائم کی وجہ سے مقامی طور پر مختلف انداز کے عذاب آئے ہیں اور آئندہ بھی آسکتے ہیں۔

(5)
مسلمانوں میں باہمی قتل وغارت واقع ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اسے ناگزیر سمجھ کر قبول کرلیں بلکہ ہمارا فرض ہے کہ مسلمانوں کو اس کیفیت سے نکالنے کے لیے جو کچھ ممکن ہوعملی طور پر کریں۔

(6)
گمراہ کرنے والے قائدین کے شر سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم قرآن اور احادیث شریفہ کا علم حاصل کریں تاکہ دین کی اصل تعلیمات کو جان کر ان پر عمل کرسکیں۔

(7)
وثن سے صرف بت (صنم)
مراد نہیں بلکہ اللہ کے سوا جس چیز کی بھی پوجا کی جائے وہ وثن ہے:
مثلاً بزرگوں کی قبریں، تصویریں، تبرکات، بزرگوں کی طرف منسوب درخت، پتھر اور غار وغیرہ۔
ان سب چیزوں سے نام نہاد عقیدت کے جو مظاہرے اور شرکیہ اعمال کیے جاتے ہیں ان کی وجہ سے یہ سب اشیاء وثن بن گئی ہیں۔
لہٰذا ان سے دور رہنا ہر توحید پرست کا فرض ہے۔

(8)
مسلمانوں کا مشرکین سے ملنا اس طرح بھی ہے کہ وہ اسلام چھوڑ کر مرتد ہوجائیں اور یہ بھی ہے کہ جنگ وجدل اور جھگڑے فساد کے موقع پر وہ مسلمانوں کے خلاف غیر مسلموں کی مدد کریں اور یہ بھی ہے کہ ان کے کافرانہ رسم ورواج اور الحاد کے مظاہر کو تہذیب قرار دے کر اختیار کرلیں جیسے ہندؤں کی بسنت اور عیسائیوں کا ویلن ٹائن ڈے اور اپریل فول وغیرہ۔

(9)
حضرت محمدﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں۔
آپ کے بعد نبوت کا دعوی کرنے والا ہر شخص دجال اور کذاب ہے جیسے کہ مرزا غلام قادیانی یا عا لیجاہ محمد وغیرہ۔

(10)
اہل حق کی ایک جماعت قیامت تک قائم رہے گی جو قرآن و حدیث کو مشعل راہ بنائے گی اور نت نئے اٹھنے والے گمراہ فرقوں کی گمراہی واضح کرے گی۔

(11)
امام ابن ماجہؒ نے اس حدیث کو اس لیے خوف زدہ کرنے والی قرار دیا ہے کہ اس میں مسلمانوں کے کفروشرک اکبر میں ملوث ہوجانے کا ذکر ہے۔
یہ بات یقیناً خطرناک ہے کہ انسان خود کو مسلمان سمجھتا رہے اوراللہ کے ہاں وہ اسلام سے خارج ہوچکا ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3952   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4252  
´فتنوں کا ذکر اور ان کے دلائل کا بیان۔`
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین سمیٹ دی یا فرمایا: میرے لیے میرے رب نے زمین سمیٹ دی، تو میں نے مشرق و مغرب کی ساری جگہیں دیکھ لیں، یقیناً میری امت کی حکمرانی وہاں تک پہنچ کر رہے گی جہاں تک زمین میرے لیے سمیٹی گئی، مجھے سرخ و سفید دونوں خزانے دئیے گئے، میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ میری امت کو کسی عام قحط سے ہلاک نہ کرے، ان پر ان کے علاوہ باہر سے کوئی ایسا دشمن مسلط نہ کرے جو انہیں جڑ سے مٹا دے، اور ان کا نام باقی نہ رہنے پائے، تو میرے رب نے مجھ سے فرمایا: اے محمد! جب ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الفتن والملاحم /حدیث: 4252]
فوائد ومسائل:
1) اس مضمون کی احادیث میں بشارت ہے کہ امتِ مسلمہ کی عملداری مشرق و مغرب کی انتہاؤں تک پہنچے گی۔
اس کا کسی قدر اظہار ہو چکا ہے اور انشا اللہ مزید بھی ہو گا۔

2) سرخ و سفید سے مراد سونے چاندی کی دولت ہے۔
اور فی الواقع دنیا میں مجموعی طور پر دولت کے مصادر و منابع جس قدر مسلمانوں کے پاس ہیں کسی اور امت کے پاس نہیں ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ موجودہ حا لات میں مسلمان اپنی نادانی اور اللہ کے عقاب (مجھے لگتا ہے سے عتاب ہونا چاہیئے لیکن جیسا فائل میں لکھا ہے میں ویسا ہی لکھ رہی ہوں) کی وجہ سے اس میں فتنے میں مبتلا ہیں اور دوسری قومیں ان کی دولت سے فائدہ اُٹھا رہی ہیں۔

3) اس امت میں کلی اور اجتماعی قحط نہیں پڑے گا جزوی ہو سکتا ہے۔

4) اس امت پر براہِ راست کو ئی دوسری قوم مسلط نہیں ہو گی وہ ہمیشہ مسلمانوں ہی میں سے کچھ لوگ ان کے خلاف استعمال کر کے ان کو مغلوب کریں گے۔
تاریخ میں یہ حقائق نمایاں اور موجودہ حالات اس کی گواہی دے رہے ہیں۔

5) ائمہ مُضلین (گمراہ امام) دینی ہوں یا سیاسی یہی امت کے لیئے سب سے بڑا فتنہ ہے۔
اور عوام کالانعام بالعموم اپنے ائمہ و حکام ہی کے پیرو ہو کرتے ہیں۔

6) اور اس حقیقت سے انکا رنہیں کہ جب سے امت میں تلوار پڑی ہے اُتھ نہیں سکی۔
لا حول ولاقوة إلابالله۔

7) بالآخر امت سے علم اُٹھا لیا جائے گا جہالت عام ہو جا ئے گی حتی کہ لوگ صریح شرک جلی بلکہ بت پرستی میں مبتلا ہو نگے۔
ونسال اللہ السلام
8) مسیلمہ کذاب سے لیکر اب تک وقتاََ فوقتاََ جھوٹے نبی ظاہر ہوتے رہے ہیں اور شائد اور بھی ہونگے، جیسے کہ ہندوستان میں مرزا غلام احمد قادیانی اپنے وقت کا ایک طاغوت ہو گزرا ہے ان کی مجمو عی تعداد تو نامعلو م کتنی ہو مگر ان میں سے تیس بہت نمایاں ہونگے۔

9) امت میں سے حق اور اہلِ حق کبھی ناپید نہیں ہونگے۔
تھوڑے بہت ہر جگہ اپنے آپ کو ظاہر اور نمایاں رکھیں گے جو ایک تاریخی حقیقت ہے اور زبانِ نبوت سے آ ئیندہ کے لیئے پیشین گو ئی بھی۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
والحمد للہ علٰی ذلك۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4252