سنن ابن ماجه
كتاب الفتن -- کتاب: فتنوں سے متعلق احکام و مسائل
12. بَابُ : كَفِّ اللِّسَانِ فِي الْفِتْنَةِ
باب: فتنہ میں زبان بند رکھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3970
حَدَّثَنَا أَبُو يُوسُفَ بْنُ الصَّيْدَلَانِيُّ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الرَّقِّيُّ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ , عَنْ ابْنِ إِسْحَاق , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ الرَّجُلَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ سُخْطِ اللَّهِ لَا يَرَى بِهَا بَأْسًا , فَيَهْوِي بِهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ سَبْعِينَ خَرِيفًا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی اپنی زبان سے اللہ کی ناراضگی کی بات کہتا ہے، اور وہ اس میں کوئی حرج نہیں محسوس کرتا، حالانکہ اس بات کی وجہ سے وہ ستر برس تک جہنم کی آگ میں گرتا چلا جاتا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ، (تحفة الأشراف: 14995، ومصباح الزجاجة: 1399)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الرقاق 23 (6478)، صحیح مسلم/الزہد والرقاق 6 (2988)، سنن الترمذی/الزہد 10 (2314)، موطا امام مالک/الکلام 2 (6)، مسند احمد (2/236، 533) (صحیح)» ‏‏‏‏ (سند میں ابن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن دوسرے طرق سے یہ صحیح ہے، کمافی التخریج)

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2314  
´غیر شرعی طور پر ہنسنے ہنسانے کی بات کرنے والے پر وارد وعید کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کبھی ایسی بات کہہ دیتا ہے جس میں وہ خود کوئی حرج نہیں سمجھتا حالانکہ اس کی وجہ سے وہ ستر برس تک جہنم کی آگ میں گرتا چلا جائے گا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد/حدیث: 2314]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ایک شخص دوسروں کو ہنسانے کے لیے اور ان کی دلچسپی کی خاطراپنی زبان سے اللہ کی ناراضگی کی بات کہتا ہے یا بناوٹی اور جھوٹی بات کہتا ہے،
اور کہنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کہ وہ باعث گناہ اور لا ئق سزا ہے حالانکہ وہ اپنی اس بات کے سبب جہنم کی سزاکا مستحق ہوتا ہے،
معلوم ہوا کہ دوسروں کو ہنسانے اورانہیں خوش کرنے کے لیے کوئی ایسی ہنسی کی بات نہیں کرنی چاہئے جو گناہ کی بات ہواور باعث عذاب ہو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2314