سنن ابن ماجه
كتاب الفتن -- کتاب: فتنوں سے متعلق احکام و مسائل
23. بَابُ : الصَّبْرِ عَلَى الْبَلاَءِ
باب: آفات و مصائب پر صبر کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4024
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ , حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ , حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ , عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ , عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ , قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُوعَكُ , فَوَضَعْتُ يَدِي عَلَيْهِ , فَوَجَدْتُ حَرَّهُ بَيْنَ يَدَيَّ فَوْقَ اللِّحَافِ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , مَا أَشَدَّهَا عَلَيْكَ , قَالَ:" إِنَّا كَذَلِكَ يُضَعَّفُ لَنَا الْبَلَاءُ وَيُضَعَّفُ لَنَا الْأَجْرُ" , قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً؟ قَالَ:" الْأَنْبِيَاءُ" , قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:" ثُمَّ الصَّالِحُونَ , إِنْ كَانَ أَحَدُهُمْ لَيُبْتَلَى بِالْفَقْرِ حَتَّى مَا يَجِدُ أَحَدُهُمْ إِلَّا الْعَبَاءَةَ يُحَوِّيهَا , وَإِنْ كَانَ أَحَدُهُمْ لَيَفْرَحُ بِالْبَلَاءِ كَمَا يَفْرَحُ أَحَدُكُمْ بِالرَّخَاءِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ کو بخار آ رہا تھا، میں نے اپنا ہاتھ آپ پر رکھا تو آپ کے بخار کی گرمی مجھے اپنے ہاتھوں میں لحاف کے اوپر سے محسوس ہوئی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کو بہت ہی سخت بخار ہے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارا یہی حال ہے ہم لوگوں پر مصیبت بھی دگنی (سخت) آتی ہے، اور ثواب بھی دگنا ملتا ہے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کن لوگوں پر زیادہ سخت مصیبت آتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انبیاء پر، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! پھر کن پر؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر نیک لوگوں پر، بعض نیک لوگ ایسی تنگ دستی میں مبتلا کر دئیے جاتے ہیں کہ ان کے پاس ایک چوغہ کے سوا جسے وہ اپنے اوپر لپیٹتے رہتے ہیں کچھ نہیں ہوتا، اور بعض آزمائش سے اس قدر خوش ہوتے ہیں جتنا تم میں سے کوئی مال و دولت ملنے پر خوش ہوتا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4189، ومصباح الزجاجة: 1417) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4024  
´آفات و مصائب پر صبر کرنے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ کو بخار آ رہا تھا، میں نے اپنا ہاتھ آپ پر رکھا تو آپ کے بخار کی گرمی مجھے اپنے ہاتھوں میں لحاف کے اوپر سے محسوس ہوئی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کو بہت ہی سخت بخار ہے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارا یہی حال ہے ہم لوگوں پر مصیبت بھی دگنی (سخت) آتی ہے، اور ثواب بھی دگنا ملتا ہے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کن لوگوں پر زیادہ سخت مصیبت آتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انبیاء پر، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! پھر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4024]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  بیماری کی شدت بھی آزمائش ہے۔
اس پر صبر کا ثواب بھی شدت کے مطابق زیادہ ہوتا ہے۔

(2)
فقر بھی آزمائش ہے۔
اس پر صبر اور شکر سے درجے بلند ہوتے ہیں
(3)
  مشکل پر خوشی کی وجہ یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں ثواب ملتا ہے۔
مشکل ختم ہوجائے گی لیکن اس کا ثواب جنت میں ہمیشہ کی نعمتوں کا باعث ہوگا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4024