سنن ابن ماجه
كتاب الفتن -- کتاب: فتنوں سے متعلق احکام و مسائل
26. بَابُ : ذَهَابِ الْقُرْآنِ وَالْعِلْمِ
باب: قرآن اور علم (حدیث) کا دنیا سے اٹھ جانا قیامت کی نشانی ہے۔
حدیث نمبر: 4051
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ , وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ شَقِيقٍ , عَنْ أَبِي مُوسَى , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مِنْ وَرَائِكُمْ أَيَّامًا يَنْزِلُ فِيهَا الْجَهْلُ , وَيُرْفَعُ فِيهَا الْعِلْمُ , وَيَكْثُرُ فِيهَا الْهَرْجُ" , قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَمَا الْهَرْجُ؟ قَالَ:" الْقَتْلُ".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے بعد ایسے دن آئیں گے جن میں جہالت چھا جائے گی، علم اٹھ جائے گا، اور «هرج» زیادہ ہو گا، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! «هرج» کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قتل۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3959  
´فتنے کے وقت تحقیق کرنے اور حق پر جمے رہنے کا بیان۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیان کیا: قیامت سے پہلے «ہرج» ہو گا، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! «ہرج» کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قتل، کچھ مسلمانوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم تو اب بھی سال میں اتنے اتنے مشرکوں کو قتل کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مشرکین کا قتل مراد نہیں بلکہ تم آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرو گے، حتیٰ کہ آدمی اپنے پڑوسی، اپنے چچا زاد بھائی اور قرابت داروں کو بھی قتل کرے گا، تو کچھ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا اس ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3959]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مسلمانوں کے درمیان معمولی باتوں پر قتل قیامت کی نشانی ہے۔
یہ ایسی بری خصلت ہے۔
جو ماضی قریب تک اس کثرت سے موجود نہیں تھی، حالانکہ دوسرے بہت سے فتنے موجود تھے۔

(2)
کسی فتنے سے پیشگی خبردار کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر مسلمان اس سے بچنے کی زیادہ کوشش کرے، اس لیے علماء اور حکام کا فرض ہے کہ اس کے اسباب پر غور کرکے اس سدباب کی کوشش کریں۔

(3)
مسلمان کو سمجھ بوجھ سے کام لینا چاہیے اور اختلافات کو قتل وغارت کا جواز نہیں بنانا چاہیے۔

(4)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے اختلافات خلوص کی بنیاد پر اور غلط فہمی کی وجہ سے تھے۔
اس لیے ان کے لیے ممکن ہوگیا کہ گمراہ لوگوں کے پروپیگنڈے کے اثر سے آزاد ہو کر اصلاح کرلیں۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ایثار اور تدبر کی وجہ سے مسلمان دوبارہ متحد ہوگئے۔

(5)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے اختلافات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کسی صحابی کے بارے میں احترام کے منافی لہجہ اختیار کرنا جائز نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3959