سنن ابن ماجه
كتاب الفتن -- کتاب: فتنوں سے متعلق احکام و مسائل
32. بَابُ : طُلُوعِ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا
باب: پچھم سے سورج نکلنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4069
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ أَبِي حَيَّانَ التَّيْمِيِّ , عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَوَّلُ الْآيَاتِ خُرُوجًا: طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا , وَخُرُوجُ الدَّابَّةِ عَلَى النَّاسِ ضُحًى" , قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَأَيَّتُهُمَا مَا خَرَجَتْ قَبْلَ الْأُخْرَى , فَالْأُخْرَى مِنْهَا قَرِيبٌ , قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: وَلَا أَظُنُّهَا إِلَّا طُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کی پہلی نشانی سورج کا پچھم سے نکلنا، اور چاشت کے وقت لوگوں پر «دابہ» (چوپایہ) کا ظاہر ہونا ہے۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ان دونوں میں سے جو بھی پہلے نکلے، تو دوسرا اس سے قریب ہو گا، میرا یہی خیال ہے کہ پہلے سورج پچھم سے نکلے گا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الفتن 23 (2941)، سنن ابی داود/الملاحم 12 (4310)، (تحفة الأشراف: 8959)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/164، 201) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی ان نشانیوں میں جو قانون قدرت کے خلاف ہیں کیونکہ پہلی نشانی مہدی علیہ السلام کا ظہور ہے، پھر عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے اتر کر زمین پر آنا، پھر دجال کا نکلنا، پھر یاجوج ماجوج کا نکلنا، اور دابۃ الارض میں اختلاف ہے کہ سورج کے نکلنے سے پہلے نکلے گا یا بعد میں نکلے گا، عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کا یہی خیال تھا کہ وہ سورج نکلنے کے بعد نکلے گا، جب کہ اوروں نے کہا کہ اس سے پہلے نکلے گا، بہرحال آسمانی نشانیوں میں سورج کا نکلنا آخری نشانی ہے، اور ارضی نشانیوں میں دابۃ الارض کا نکلنا پہلی، اور بعض نے کہا کہ پہلی قیامت کی نشانی دجال کا نکلنا ہے، پھر عیسیٰ علیہ السلام کا اترنا، پھر یاجوج اور ماجوج کا نکلنا، پھر دابۃ الارض کا، پھر سورج کا پچھم سے نکلنا، کیونکہ سورج نکلنے پر ایمان کا دروازہ بند ہو جائے گا، اور عیسیٰ علیہ السلام کے عہد میں بہت سے کافر دین اسلام کو قبول کریں گے یہاں تک کہ ساری دنیا میں ایک ہی دین ہو جائے گا۔ «والحمد لله الذي بنعمته تتم الصالحات» ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4310  
´قیامت کی نشانیوں کا بیان۔`
ابوزرعہ کہتے ہیں کہ کچھ لوگ مروان کے پاس مدینہ آئے تو وہاں اسے (قیامت کی) نشانیوں کے متعلق بیان کرتے سنا کہ سب سے پہلی نشانی ظہور دجال کی ہو گی، تو میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے پاس گیا، اور ان سے اسے بیان کیا، تو عبداللہ نے صرف اتنا کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ پہلی نشانی سورج کا پچھم سے طلوع ہونا ہے، یا بوقت چاشت لوگوں کے درمیان دابہ (چوپایہ) کا ظہور ہے، ان دونوں میں سے جو نشانی بھی پہلے واقع ہو دوسری بالکل اس سے متصل ہو گی، اور عبداللہ بن عمرو جن کے زیر مطالعہ آسمانی کتابیں رہا کرتی تھیں کہتے ہیں: میرا خیال ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الملاحم /حدیث: 4310]
فوائد ومسائل:
فائدہ خروج دابہ قیامت سے پہلے کی علامات میں سے ایک اہم علامت ایک مخصوص جانور کا ظہور بھی ہے جو لوگوں سے باتیں کرے گا اس کا آنا عین حق ہے اور قرآن مجید میں ارشادِ الٰہی ہے جب ان پر عذاب کا وعدہ ثابت ہو جائے گا ہم زمیں سے ان کے لیئے ایک جانور نکالیں گے جو ان سے باتیں کرے گا اس لیئے کہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہیں کرتے تھے، النمل 83۔
بعض روایات میں اس جانور سے مراد جسامہ لیا گیا ہے۔
واللہ اعلم۔
تفصیل کے لیئے دیکھیں تفسیر ابنِ کثیر وقرطبی وغیرہ فائدہ ایمان وہی مفید اور مقبول ہے جو بالغیب ہو، حقائق آخرت کا مشاہدہ کر لینے کے بعد ایمان کسی طور بھی مفید نہ ہوگا۔
آخرت میں بھی کفار یہی کہیں گے: (رَبَّنَاۤ اَبْصَرْنَا وَ سَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ) اے ہمارے رب اب ہم نے دیکھا اور سُنا ہمیں پھر بھیج کہ نیک کام کریں ہم کو یقین آ گیا۔
لیکن دنیا میں دوبارہ آنا ممکن نہ ہوگا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4310