صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
84. بَابُ تَفْسِيرِ الْعَرَايَا:
باب: عریہ کی تفسیر کا بیان۔
وَقَالَ مَالِكٌ: الْعَرِيَّةُ، أَنْ يُعْرِيَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ النَّخْلَةَ، ثُمَّ يَتَأَذَّى بِدُخُولِهِ عَلَيْهِ، فَرُخِّصَ لَهُ أَنْ يَشْتَرِيَهَا مِنْهُ بِتَمْرٍ، وَقَالَ ابْنُ إِدْرِيسَ: الْعَرِيَّةُ لَا تَكُونُ إِلَّا بِالْكَيْلِ مِنَ التَّمْرِ يَدًا بِيَدٍ، لَا يَكُونُ بِالْجِزَافِ، وَمِمَّا يُقَوِّيهِ قَوْلُ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ: بِالْأَوْسُقِ الْمُوَسَّقَةِ، وَقَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ فِي حَدِيثِهِ: عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، كَانَتِ الْعَرَايَا أَنْ يُعْرِيَ الرَّجُلُ فِي مَالِهِ النَّخْلَةَ وَالنَّخْلَتَيْنِ، وَقَالَ يَزِيدُ: عَنْ سُفْيَانَ بْنِ حُسَيْنٍ، الْعَرَايَا نَخْلٌ كَانَتْ تُوهَبُ لِلْمَسَاكِينِ، فَلَا يَسْتَطِيعُونَ أَنْ يَنْتَظِرُوا، بِهَا رُخِّصَ لَهُمْ أَنْ يَبِيعُوهَا بِمَا شَاءُوا مِنَ التَّمْرِ.
‏‏‏‏ امام مالک رحمہ اللہ نے کہا کہ عریہ یہ ہے کہ کوئی شخص (کسی باغ کا مالک اپنے باغ میں) دوسرے شخص کو کھجور کا درخت (ہبہ کے طور پر) دیدے، پھر اس شخص کا باغ میں آنا اچھا نہ معلوم ہو، تو اس صورت میں وہ شخص ٹوٹی ہوئی کھجور کے بدلے میں اپنا درخت (جسے وہ ہبہ کر چکا ہے) خرید لے اس کی اس کے لیے رخصت دی گئی ہے اور ابن ادریس (امام شافعی رحمہ اللہ) نے کہا کہ عریہ جائز نہیں ہوتا مگر (پانچ وسق سے کم میں) سوکھی کھجور ناپ کر ہاتھوں ہاتھ دیدے یہ نہیں کہ دونوں طرف اندازہ ہو۔ اور اس کی تائید سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ کے قول سے بھی ہوتی ہے کہ وسق سے ناپ کر کھجور دی جائے۔ ابن اسحاق رحمہ اللہ نے اپنی حدیث میں نافع سے بیان کیا اور انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیا کہ عریہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے باغ میں کھجور کے ایک دو درخت کسی کو عاریتاً دیدے اور یزید نے سفیان بن حسین سے بیان کی کہ عریہ کھجور کے اس درخت کو کہتے ہیں جو مسکینوں کو للہ دے دیا جائے، لیکن وہ کھجور کے پکنے کا انتظار نہیں کر سکتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کی اجازت دی کہ جس قدر سوکھی کھجور کے بدل چاہیں اور جس کے ہاتھ چاہیں بیچ سکتے ہیں۔