سنن ابن ماجه
كتاب الزهد -- کتاب: زہد و ورع اور تقوی کے فضائل و مسائل
11. بَابُ : ضِجَاعِ آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بچھونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4152
حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ , عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَلِيٍّ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَتَى عَلِيًّا , وَفَاطِمَةَ وَهُمَا فِي خَمِيلٍ لَهُمَا , وَالْخَمِيلُ: الْقَطِيفَةُ الْبَيْضَاءُ مِنَ الصُّوفِ , قَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَهَّزَهُمَا بِهَا , وَوِسَادَةٍ مَحْشُوَّةٍ إِذْخِرًا وَقِرْبَةٍ".
علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی اور فاطمہ (رضی اللہ عنہما) کے پاس آئے، وہ دونوں اپنی «خمیل» (سفید اونی چادر کو کہتے ہیں) اوڑھے ہوئے تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو یہ چادر تھی، اذخر کی گھاس بھرا ایک تکیہ اور پانی رکھنے کی ایک مشک شادی کے وقت دی تھی۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/النکاح 81 (3386)، (تحفة الأشراف: 10104)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/84، 93، 108) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4152  
´آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بچھونے کا بیان۔`
علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی اور فاطمہ (رضی اللہ عنہما) کے پاس آئے، وہ دونوں اپنی «خمیل» (سفید اونی چادر کو کہتے ہیں) اوڑھے ہوئے تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو یہ چادر تھی، اذخر کی گھاس بھرا ایک تکیہ اور پانی رکھنے کی ایک مشک شادی کے وقت دی تھی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4152]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رسول اللہﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو ان کے نکاح کے موقع پر گھریلو استعمال کی کچھ چیزیں دی تھیں۔
بعض لوگوں نے اس کو جہیز کے موجودہ رواج کی دلیل بنایا ہےجو درست نہیں۔
اصل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے والد ابو طالب مفلس آدمی تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے ان کی مدد کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی کفالت میں لے لیا۔
جب وہ جوان ہوئے تو نبی ﷺ نے اپنی صاحب زادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کا ان سے نکاح کردیا۔
اس موقع پر ان کا الگ گھر بسانے کے لیے ضروری سامان مہیا کیا گیا ہے۔
اور اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بھی مالی حالت اتنی پتلی تھی کہ جب ان کو کہا گیا کہ شب زفاف کے وقت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو کوئی تحفہ دو تو انھوں نے کہا:
میرے پاس تو کچھ نہیں ہے، نبی ﷺ نے فرمایا:
اسے اپنی چادر ہی دے دو جو تمھارے پاس ہے۔ (سنن أبي داؤد النكاح باب في الرجل يدخل بامرأته قبل أن ينقدها شيئاً حديث: 2125)
حدیث کے الفاظ (جهز هما بها)
بھی قابل غور ہیں اس کا ترجمہ جہیز دینا غلط ہے بلکہ اس کا مفہوم یا تو گھر بسانے کے لیے سامان مہیا کرنا ہے یا شب بسری کے لیے تیار کرنا۔
اور یہ دوسرے معنی زیادہ صحیح ہیں۔
تثینے کی ضمیر سے اسی مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔
اگر اس سے مراد مروجہ جہیز ہوتا تو ضمیر صرف مؤنث کی ہوتی (جهزها)
نہ کہ (جهزهما)

(2) (وسادۃ)
اس سرہانے کو کہتے ہیں جس پر سوتے وقت سر رکھا جاتا ہے۔
اور اس گاؤ تکیے کو بھی کہتے ہیں جس سے بیٹھتے وقت ٹیک لگائی جاتی ہے۔
حضرت فاطمہ کو ملنے والا تکیہ پہلی قسم کا بھی ہوسکتا ہےدوسری قسم کا بھی۔
واللہ اعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4152