سنن ابن ماجه
كتاب الزهد -- کتاب: زہد و ورع اور تقوی کے فضائل و مسائل
12. بَابُ : مَعِيشَةِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی معیشت کا بیان۔
حدیث نمبر: 4159
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ , عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ , عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ , عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ:" بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَنَحْنُ ثَلَاثُ مِائَةٍ , نَحْمِلُ أَزْوَادَنَا عَلَى رِقَابِنَا , فَفَنِيَ أَزْوَادُنَا حَتَّى كَانَ يَكُونُ لِلرَّجُلِ مِنَّا تَمْرَةٌ , فَقِيلَ: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ , وَأَيْنَ تَقَعُ التَّمْرَةُ مِنَ الرَّجُلِ؟ فَقَالَ: لَقَدْ وَجَدْنَا فَقْدَهَا حِينَ فَقَدْنَاهَا , وَأَتَيْنَا الْبَحْرَ , فَإِذَا نَحْنُ بِحُوتٍ قَدْ قَذَفَهُ الْبَحْرُ , فَأَكَلْنَا مِنْهُ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ يَوْمًا".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تین سو آدمیوں کو روانہ کیا، ہم نے اپنے توشے اپنی گردنوں پر لاد رکھے تھے، ہمارا توشہ ختم ہو گیا، یہاں تک کہ ہم میں سے ہر شخص کو ایک کھجور ملتی، کسی نے پوچھا: ابوعبداللہ! ایک کھجور سے آدمی کا کیا ہوتا ہو گا؟ جواب دیا: جب وہ بھی ختم ہو گئی تو ہمیں اس کی قدر معلوم ہوئی، ہم سمندر تک آئے، آخر ہمیں ایک مچھلی ملی جسے سمندر نے باہر پھینک دیا تھا، ہم اس میں سے اٹھارہ دن تک کھاتے رہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الشرکة 1 (2483)، الجہاد 124 (2983)، المغازي 65 (4360)، الصید 12 (19493)، صحیح مسلم/الصید 4 (1935)، سنن النسائی/الصید 35 (4356)، (تحفة الأشراف: 3125)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/القیامة 34 (2475)، موطا امام مالک/صفة النبي ﷺ10 (24)، سنن الدارمی/الصید 6 (2055) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اور موٹے تازے ہو گئے، مچھلی اتنی بڑی تھی کہ اس کی پیٹھ کی دونوں ہڈیوں میں سے اونٹ نکل جاتا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب مدینہ لوٹ کر آئے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اللہ تعالیٰ نے تم کو کھانا بھیجا تھا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4159  
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی معیشت کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تین سو آدمیوں کو روانہ کیا، ہم نے اپنے توشے اپنی گردنوں پر لاد رکھے تھے، ہمارا توشہ ختم ہو گیا، یہاں تک کہ ہم میں سے ہر شخص کو ایک کھجور ملتی، کسی نے پوچھا: ابوعبداللہ! ایک کھجور سے آدمی کا کیا ہوتا ہو گا؟ جواب دیا: جب وہ بھی ختم ہو گئی تو ہمیں اس کی قدر معلوم ہوئی، ہم سمندر تک آئے، آخر ہمیں ایک مچھلی ملی جسے سمندر نے باہر پھینک دیا تھا، ہم اس میں سے اٹھارہ دن تک کھاتے رہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4159]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
 
(1)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے ہر قسم کے حالات سے جہاد کیا خواہ ان کے پاس سواریاں اور راشن وغیرہ بھی نہ ہوتا۔

(2)
مچھلی مری ہوئی بھی حلال ہے۔

(3)
جہاد میں اللہ کی طرف سے غیر متوقع طور پر مدد حاصل ہوتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4159   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2475  
´باب:۔۔۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تین سو کی تعداد میں بھیجا، ہم اپنا اپنا زاد سفر اٹھائے ہوئے تھے، ہمارا زاد سفر ختم ہو گیا نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ہر آدمی کے حصہ میں صرف ایک ایک کھجور آتی تھی، ان سے کہا گیا: ابوعبداللہ! ایک کھجور سے آدمی کا کیا ہوتا ہو گا؟ جب وہ بھی ختم ہو گئی تو ہمیں اس کی قدر معلوم ہوئی، انہوں نے فرمایا: ہم سمندر کے کنارے پہنچے آخر ہمیں ایک مچھلی ملی، جسے سمندر نے باہر پھینک دیا تھا، چنانچہ ہم اس میں سے اٹھارہ دن تک جس طرح چاہا سیر ہو کر کھاتے رہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2475]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہواکہ صحابہ کرام دنیا سے کس قدر بے رغبت تھے،
فقر وتنگدستی کی وجہ سے ان کی زندگی کس طرح پریشانی کے عالم میں گزرتی تھی،
اس کے باوجود بھوک کی حالت میں بھی ان کا جذبہ جہاد بلند ہوتا تھا،
کیوں کہ وہ صبر وضبط سے کام لیتے تھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2475   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3840  
´سمندری جانوروں کے کھانے کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو ہم پر امیر بنا کر قریش کا ایک قافلہ پکڑنے کے لیے روانہ کیا اور زاد سفر کے لیے ہمارے ساتھ کھجور کا ایک تھیلہ تھا، اس کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں تھا، ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ ہمیں ہر روز ایک ایک کھجور دیا کرتے تھے، ہم لوگ اسے اس طرح چوستے تھے جیسے بچہ چوستا ہے، پھر پانی پی لیتے، اس طرح وہ کھجور ہمارے لیے ایک دن اور ایک رات کے لیے کافی ہو جاتی، نیز ہم اپنی لاٹھیوں سے درخت کے پتے جھاڑتے پھر اسے پانی میں تر کر کے کھاتے، پھر ہم ساحل سمندر پر چلے توریت کے ٹیلہ جیسی ای۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3840]
فوائد ومسائل:

عنبر بہت بری وہیل مچھلیوں کی ایک قسم ہے۔
اس کے ابھرے ہوئے سرسے تیل نکلتا ہے۔
جو مشینری کو چکناتا ہے۔
اور اس کی انتڑیوں سے معروف خوشبو عنبرحاصل ہوتی ہے۔
بہت بڑی مچھلی جب پانی کی شہ زور موجوں کے ذریعے سے ساحل کے کم گہرے حصوں پر آکر پھنس جاتی ہے۔
اور موجوں کی واپسی کے وقت واپس نہیں جا سکتی۔
تو کنارے پر ہی اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔
مرنے والے جانداروں کے جسم سے گلنے سڑنے کا عمل انتڑیوں وغیرہ سے شروع ہوتا ہے۔
کہ اس میں فضلات ہوتے ہیں۔
اس بڑی وہیل کی انتڑیوں میں انتہائی خوشبو دار چکنا مادہ عنبر موجود ہوتا ہے۔
جو انتڑیوں سے گلنے سڑنے کے عمل کو شروع نہیں ہونے دیتا۔
اس لئے اس کا گوشت نسبتا زیادہ عرصے کےلئے محفوظ رہتا ہے۔
بحیرہ قلزم کے دونوں طرف عرب اور افریقہ میں گوشت کی دوسری اقسام کے علاوہ مچھلی کو دھوپ میں خشک کرنے کا طریقہ قدیم سے موجود تھا۔
اوراب تک موجود ہے۔
ان علاقوں کی منڈیوں میں آج بھی بڑی مقدار میں خشک مچھلی بکتی ہے۔
جو بالکل خشک لکڑی کی طرح محسوس ہوتی ہے۔
اب آسٹریلیا وغیرہ میں جدید طریقوں کے مطابق بڑی مقدار میں مچھلی کو خشک کرکے ان علاقوں سمیت دنیا بھر میں فروخت کیا جاتا ہے۔


تین سو صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین نے ایک مہینے تک اس محفوظ شدہ مقوی غذا کو استعمال کیا۔
اور ساتھ لے آئے جو بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں پیش کی گئی۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا تنگ دستی کے عالم میں جہاد کے اس موقع پر ایسی غذا کی فراہمی اللہ کی طرف سے خصوصی انعام ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے اشاعت اسلام میں جس عزیمت کی مثالیں قائم کی ہیں۔
دنیا کی کوئی تحریک اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصرہے۔
اللہ اور اس کے رسولﷺکی محبت ااطاعت امیر اور صبر جانفشانی کے بغیر دین ودنیا کا کوئی کام کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا۔


اس واقعہ سے ثابت ہوا کہ سمندری جانور مچھلی کے حکم میں ہیں۔
یعنی وہ از خود مرجایئں تب بھی حلال ہیں۔
جیسا کہ گزشتہ حدیث 3815 میں گزرا ہے۔


نیز مبارک چیز سے حصہ لینے کی خواہش کرنا معیوب نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3840