صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
98. بَابُ إِذَا اشْتَرَى شَيْئًا لِغَيْرِهِ بِغَيْرِ إِذْنِهِ فَرَضِيَ:
باب: کسی نے کوئی چیز دوسرے کے لیے اس کی اجازت کے بغیر خرید لی پھر وہ راضی ہو گیا تو یہ معاملہ جائز ہے۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بِهَذَا، وَقَالَ: فِي كُلِّ مَا لَمْ يُقْسَمْ، تَابَعَهُ هِشَامٌ، عَنْ مَعْمَرٍ، قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: فِي كُلِّ مَالٍ، رَوَاهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ.
ہم سے مسدد نے اور ان سے عبدالواحد نے اسی طرح بیان کیا، اور کہا کہ ہر اس چیز میں (شفعہ ہے) جو تقسیم نہ ہوئی ہو۔ اس کی متابعت ہشام نے معمر کے واسطہ سے کی ہے اور عبدالرزاق نے یہ لفظ کہے کہ ہر مال میں اس کی روایت عبدالرحمٰن بن اسحاق نے زہری سے کی ہے۔
حدیث نمبر: 2215
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" خَرَجَ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ يَمْشُونَ فَأَصَابَهُمُ الْمَطَرُ، فَدَخَلُوا فِي غَارٍ فِي جَبَلٍ، فَانْحَطَّتْ عَلَيْهِمْ صَخْرَةٌ، قَالَ: فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: ادْعُوا اللَّهَ بِأَفْضَلِ عَمَلٍ عَمِلْتُمُوهُ، فَقَالَ أَحَدُهُمْ: اللَّهُمَّ إِنِّي كَانَ لِي أَبَوَانِ شَيْخَانِ كَبِيرَانِ فَكُنْتُ أَخْرُجُ فَأَرْعَى، ثُمَّ أَجِيءُ فَأَحْلُبُ فَأَجِيءُ بِالْحِلَابِ فَآتِي بِهِ أَبَوَيَّ فَيَشْرَبَانِ، ثُمَّ أَسْقِي الصِّبْيَةَ وَأَهْلِي وَامْرَأَتِي، فَاحْتَبَسْتُ لَيْلَةً فَجِئْتُ فَإِذَا هُمَا نَائِمَانِ، قَالَ: فَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَهُمَا وَالصِّبْيَةُ يَتَضَاغَوْنَ عِنْدَ رِجْلَيَّ، فَلَمْ يَزَلْ ذَلِكَ دَأْبِي وَدَأْبَهُمَا حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ، اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ، فَافْرُجْ عَنَّا فُرْجَةً نَرَى مِنْهَا السَّمَاءَ، قَالَ: فَفُرِجَ عَنْهُمْ، وَقَالَ الْآخَرُ: اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي كُنْتُ أُحِبُّ امْرَأَةً مِنْ بَنَاتِ عَمِّي كَأَشَدِّ مَا يُحِبُّ الرَّجُلُ النِّسَاءَ، فَقَالَتْ: لَا تَنَالُ ذَلِكَ مِنْهَا حَتَّى تُعْطِيَهَا مِائَةَ دِينَارٍ، فَسَعَيْتُ فِيهَا حَتَّى جَمَعْتُهَا، فَلَمَّا قَعَدْتُ بَيْنَ رِجْلَيْهَا، قَالَتِ: اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تَفُضَّ الْخَاتَمَ إِلَّا بِحَقِّهِ، فَقُمْتُ وَتَرَكْتُهَا، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ عَنَّا فُرْجَةً، قَالَ: فَفَرَجَ عَنْهُمُ الثُّلُثَيْنِ، وَقَالَ الْآخَرُ: اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي اسْتَأْجَرْتُ أَجِيرًا بِفَرَقٍ مِنْ ذُرَةٍ، فَأَعْطَيْتُهُ وَأَبَى ذَاكَ أَنْ يَأْخُذَ، فَعَمَدْتُ إِلَى ذَلِكَ الْفَرَقِ فَزَرَعْتُهُ، حَتَّى اشْتَرَيْتُ مِنْهُ بَقَرًا وَرَاعِيهَا، ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ: يَا عَبْدَ اللَّهِ أَعْطِنِي حَقِّي، فَقُلْتُ: انْطَلِقْ إِلَى تِلْكَ الْبَقَرِ وَرَاعِيهَا، فَإِنَّهَا لَكَ، فَقَالَ: أَتَسْتَهْزِئُ بِي، قَالَ: فَقُلْتُ: مَا أَسْتَهْزِئُ بِكَ، وَلَكِنَّهَا لَكَ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ عَنَّا، فَكُشِفَ عَنْهُمْ".
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا کہا کہ ہم کو ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے موسیٰ بن عقبہ نے خبر دی، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تین شخص کہیں باہر جا رہے تھے کہ اچانک بارش ہونے لگی۔ انہوں نے ایک پہاڑ کے غار میں جا کر پناہ لی۔ اتفاق سے پہاڑ کی ایک چٹان اوپر سے لڑھکی (اور اس غار کے منہ کو بند کر دیا جس میں یہ تینوں پناہ لیے ہوئے تھے) اب ایک نے دوسرے سے کہا کہ اپنے سب سے اچھے عمل کا جو تم نے کبھی کیا ہو، نام لے کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ اس پر ان میں سے ایک نے یہ دعا کی اے اللہ! میرے ماں باپ بہت ہی بوڑھے تھے۔ میں باہر لے جا کر اپنے مویشی چراتا تھا۔ پھر جب شام کو واپس آتا تو ان کا دودھ نکالتا اور برتن میں پہلے اپنے والدین کو پیش کرتا۔ جب میرے والدین پی چکتے تو پھر بچوں کو اور اپنی بیوی کو پلاتا۔ اتفاق سے ایک رات واپسی میں دیر ہو گئی اور جب میں گھر لوٹا تو والدین سو چکے تھے۔ اس نے کہا کہ پھر میں نے پسند نہیں کیا کہ انہیں جگاؤں بچے میرے قدموں میں بھوکے پڑے رو رہے تھے۔ میں برابر دودھ کا پیالہ لیے والدین کے سامنے اسی طرح کھڑا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ اے اللہ! اگر تیرے نزدیک بھی میں نے یہ کام صرف تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا، تو ہمارے لیے اس چٹان کو ہٹا کر اتنا راستہ تو بنا دے کہ ہم آسمان کو تو دیکھ سکیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ چنانچہ وہ پتھر کچھ ہٹ گیا۔ دوسرے شخص نے دعا کی اے اللہ! تو خوب جانتا ہے کہ مجھے اپنے چچا کی ایک لڑکی سے اتنی زیادہ محبت تھی جتنی ایک مرد کو کسی عورت سے ہو سکتی ہے۔ اس لڑکی نے کہا تم مجھ سے اپنی خواہش اس وقت تک پوری نہیں کر سکتے جب تک مجھے سو اشرفی نہ دے دو۔ میں نے ان کے حاصل کرنے کی کوشش کی، اور آخر اتنی اشرفی جمع کر لی۔ پھر جب میں اس کی دونوں رانوں کے درمیان بیٹھا۔ تو وہ بولی، اللہ سے ڈر، اور مہر کو ناجائز طریقے پر نہ توڑ۔ اس پر میں کھڑا ہو گیا اور میں نے اسے چھوڑ دیا۔ اب اگر تیرے نزدیک بھی میں نے یہ عمل تیری ہی رضا کے لیے کیا تھا تو ہمارے لیے (نکلنے کا) راستہ بنا دے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ چنانچہ وہ پتھر دو تہائی ہٹ گیا۔ تیسرے شخص نے دعا کی اے اللہ! تو جانتا ہے کہ میں نے ایک مزدور سے ایک فرق جوار پر کام کرایا تھا۔ جب میں نے اس کی مزدوری اسے دے دی تو اس نے لینے سے انکار کر دیا۔ میں نے اس جوار کو لے کر بو دیا (کھیتی جب کٹی تو اس میں اتنی جوار پیدا ہوئی کہ) اس سے میں نے ایک بیل اور ایک چرواہا خرید لیا۔ کچھ عرصہ بعد پھر اس نے آ کر مزدوری مانگی کہ اللہ کے بندے مجھے میرا حق دیدے۔ میں نے کہا کہ اس بیل اور اس کے چرواہے کے پاس جاؤ کہ یہ تمہارے ہی ملک ہیں۔ اس نے کہا کہ مجھ سے مذاق کرتے ہو۔ میں نے کہا میں مذاق نہیں کرتا واقعی یہ تمہارے ہی ہیں۔ تو اے اللہ! اگر تیرے نزدیک یہ کام میں نے صرف تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو یہاں ہمارے لیے (اس چٹان کو ہٹا کر) راستہ بنا دے۔ چنانچہ وہ غار پورا کھل گیا اور وہ تینوں شخص باہر آ گئے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2215  
2215. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: تین آدمی کہیں جانے کے لیے نکلے تو راستے میں انھیں بارش نے آلیا چنانچہ (بارش سے بچنے کے لیے) وہ تینوں ایک پہاڑ کی غار میں داخل ہوگئے۔ اوپر سے ایک چٹان گری (جس سے غار کامنہ بند ہوگیا) انھوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ اپنے بہترین عمل کا وسیلہ دے کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو جو تم نے کیاہے، تو ان میں سے ایک نے کہا: اے اللہ!میرے والدین بہت بوڑھے تھے، میں گھر سے نکلتا اور اپنے مویشیوں کو چراتا پھر شام کو واپس آتا، دودھ نکالتا، اسے لے کر پہلے والدین کو پیش کرتا۔ جب وہ نوش جاں کرلیتے تو پھر بچوں بیوی اور دیگر اہل خانہ کو پلایا کرتا تھا۔ ایک شام مجھے دیر ہوگئی۔ جب میں واپس گھر آیا تو والدین سو گئے تھے۔ میں نے انھیں بیدار کرنا اچھا خیال نہ کیا۔ دریں حالت میرے بچے پاؤں کے پاس بھوک سے بلبلارہے تھے۔ میری اور میرے والدین کی کیفیت رات۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2215]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ ا س باب میں جو یہ حدیث لائے۔
اس سے مقصود اخیر شخص کا بیان ہے کیوں کہ بغیر مالک سے پوچھے اس جوار کو دوسرے کام میں صرف کیا اور اس سے نفع کمایا، اور بیع کو بھی اس پر قیاس کیا۔
تو بیع فضولی نکاح فضولی کی طرح صحیح ہے اور مالک کی اجازت پر نافذ ہوجاتی ہے۔
اس حدیث طویل سے اعمال صالحہ کو بطور وسیلہ اللہ کے سامنے پیش کرنا بھی ثابت ہوا کہ اصل وسیلہ ایسے ہی اعمال صالحہ کا ہے اور آیت کریمہ ﴿وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ﴾ کا یہی مفہوم ہے۔
جو لوگ قبروں، مزاروں اور مردہ بزرگوں کا وسیلہ ڈھونڈھتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔
اور ایسے وسائل بعض دفعہ شرکیات کی حد میں داخل ہوجاتے ہیں۔
حدیث میں چرواہے کا واقعہ ہے جس سے بچوں پر ظلم کا شبہ ہوتا ہے کہ وہ رات بھر بھوکے بلبلاتے رہے۔
مگر یہ ظلم نہیں ہے۔
یہ ان کی نیک نیتی تھی کہ وہ پہلے والدین کو پلانا چاہتے تھے اور آیت کریمہ ﴿وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ﴾ (الحشر: 9)
کا ایک مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے جو یہاں مذکور ہے۔
وهنا طریق أخر في الجواز و وهو أنه صلی اللہ علیه وسلم ذکر هذہ القصة في معرض المدح و الثناء علی فاعلها و أقرہ علی ذلك و لو کان لا یجوز لبینه۔
یعنی باب کے مضمون مذکورہ کا جواز یوں بھی ثابت ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے اس قصہ کو اور اس میں اس مزدور کے متعلق امر واقعہ کو بطور مدح و ثنا ذکر فرمایا۔
اسی سے مضمون باب ثابت ہوا کہ اگر یہ فعل ناجائز ہوتا تو آپ اسے بیان فرما دیتے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2215   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2215  
2215. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: تین آدمی کہیں جانے کے لیے نکلے تو راستے میں انھیں بارش نے آلیا چنانچہ (بارش سے بچنے کے لیے) وہ تینوں ایک پہاڑ کی غار میں داخل ہوگئے۔ اوپر سے ایک چٹان گری (جس سے غار کامنہ بند ہوگیا) انھوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ اپنے بہترین عمل کا وسیلہ دے کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو جو تم نے کیاہے، تو ان میں سے ایک نے کہا: اے اللہ!میرے والدین بہت بوڑھے تھے، میں گھر سے نکلتا اور اپنے مویشیوں کو چراتا پھر شام کو واپس آتا، دودھ نکالتا، اسے لے کر پہلے والدین کو پیش کرتا۔ جب وہ نوش جاں کرلیتے تو پھر بچوں بیوی اور دیگر اہل خانہ کو پلایا کرتا تھا۔ ایک شام مجھے دیر ہوگئی۔ جب میں واپس گھر آیا تو والدین سو گئے تھے۔ میں نے انھیں بیدار کرنا اچھا خیال نہ کیا۔ دریں حالت میرے بچے پاؤں کے پاس بھوک سے بلبلارہے تھے۔ میری اور میرے والدین کی کیفیت رات۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2215]
حدیث حاشیہ:
(1)
فرق، دو صاع کے برابر غلہ ناپنے کا ایک پیمانہ ہے۔
(2)
امام بخاری ؒ نے بیع فضولی کا جواز ثابت کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ کوئی شخص دوسرے کی اجازت کے بغیر اس کے مال سے کوئی چیز خرید لے، پھر وہ راضی ہوجائے تو یہ سودا جائز ہے۔
دوسرے شخص کا راضی ہونا ضروری ہے۔
بیع فضولی،نکاح فضولی کی طرح صحیح ہے اور دوسرے شخص کی اجازت پر نافذ ہوجاتی ہے۔
امام بخاری ؒ کا استدلال اس حدیث میں آخری شخص کا بیان ہے کیونکہ اس نے اصل مالک کی اجازت کے بغیر اس کے مملوکہ مال کو کام میں صرف کیا، اس سے نفع کمایا،گائیں خریدیں اور نگہبانی کے لیے ایک چرواہا رکھا، آخر کار اس مزدور نے اسے قبول کرلیا۔
رسول اللہ ﷺ نے اس واقعے کو بطور مدح وثنا کے بیان فرمایا۔
اگر آخری شخص کا یہ عمل ناجائز ہوتا تو وہ اسے اللہ کے حضور کیوں پیش کرتا؟ نیز رسول اللہ ﷺ بھی اس کی وضاحت فرمادیتے۔
(3)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہم سے پہلے لوگوں کی شریعت ہمارے لیے حجت ہے بشرطیکہ اس کا کوئی ضابطہ ہماری شریعت کے خلاف نہ ہو اور رسول اللہ ﷺ سے اس پر انکار ثابت نہ ہو، لیکن فکر فراہی کے حاملین کو اس طریق استدلال سے اتفاق نہیں۔
انھوں نے اس حدیث کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا ہے کہ اس قصے سے فقہی اصول مستنبط نہیں کیے جاسکتے، نیز ان کے نزدیک اس حدیث میں بہت عریانی پائی جاتی ہے، اس کے علاوہ دعا کا یہ طریقہ اسلام کے مزاج کے منافی ہے، پھر اس طرح کی دیگر روایات جن سے دعا کرتے وقت کسی نیک عمل یا کسی زندہ نیک شخص کے وسیلے کا ذکر ہے ان کا انکار کیا ہے اور انھیں شیعہ حضرات کی گھڑی ہوئی کہانی قرار دیا ہے، پھر اس انکار کی بنیاد کوئی علمی اصول نہیں بلکہ ان کی طبع زاد "درایت" ہے۔
اس درانتی سے صحیح احادیث کو کاٹا جاتا ہے۔
(تدبر حدیث: 498/1)
بہر حال ہمارے نزدیک بیع فضولی صحیح ہے اور اعمال صالحہ کو اللہ کے حضور بطور وسیلہ پیش کیا جاسکتا ہے۔
قرآن کریم میں بھی اس کا اشارہ ملتا ہے۔
(المائدة: 35: 5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2215