صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
101. بَابُ جُلُودِ الْمَيْتَةِ قَبْلَ أَنْ تُدْبَغَ:
باب: دباغت سے پہلے مردار کی کھال (کا بیچنا جائز ہے یا نہیں؟)۔
حدیث نمبر: 2221
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ، أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَخْبَرَهُ:" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِشَاةٍ مَيِّتَةٍ، فَقَالَ: هَلَّا اسْتَمْتَعْتُمْ بِإِهَابِهَا؟ قَالُوا: إِنَّهَا مَيِّتَةٌ، قَالَ: إِنَّمَا حَرُمَ أَكْلُهَا".
ہم سے زہیر بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے بیان کیا، ان سے صالح نے بیان کیا، کہ مجھ سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک مردہ بکری پر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے چمڑے سے تم لوگوں نے کیوں نہیں فائدہ اٹھایا؟ صحابہ نے عرض کیا، کہ وہ تو مردار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مردار کا صرف کھانا منع ہے۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 16  
´دباغت (رنگائی) کے بعد ہر قسم کا چمڑا پاک ہو جاتا ہے`
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏إذا دبغ الإهاب فقد طهر . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب کچے چمڑے کو (مسالہ لگا کر) رنگ دیا جائے تو وہ پاک ہو جاتا ہے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 16]

لغوی تشریح:
«دُبِغَ» «دِبَاغ» سے ماخوذ ہے۔ «دُبِغَ» صیغۂ مجہول ہے۔ اس کا مطلب ہے: چمڑے کی رطوبت اور دیگر فضلات (گندگیوں) کو خشک کرنا اور جو چیز اس کی بدبو اور خرابی کی موجب ہو اسے زائل کرنا۔
«اَلْإِهَابُ» بروزن «اَلْكِتَابُ» ۔ مطلق چمڑے کے لیے استعمال ہوتا ہے یا پھر اس چمڑے کو بھی کہتے ہیں جسے ابھی تک رنگا نہ گیا ہو۔
«أَيُّمَا إِهَابٍ دُبِغَ» باقی ماندہ الفاظ حدیث یہ ہیں: «فَقَدْ طَهُرَ» اور «أَيُّمَا» عمومیت کا مفہوم ادا کرتا ہے، اس لیے اس میں تمام چمڑے شامل ہیں۔

فوائد و مسائل:
➊ یہ حدیث ہر قسم اور ہر نوع کے حیوانات کے چمڑوں کو شامل ہے، البتہ خنزیر، یعنی سور کا چمڑا بالاتفاق اس سے مستثنیٰ ہے اور اکثریت کے نزدیک کتے کا چمڑا بھی مستثنیٰ ہے اور محققین علماء کے نزدیک ان تمام جانوروں کا چمڑا بھی مستثنیٰ ہے جو غیر مأکول اللحم ہیں، یعنی جن کا گوشت کھایا نہیں جاتا۔
➋ حدیث مذکور سے معلوم ہوتا ہے کہ دباغت (رنگائی) کے بعد ہر قسم کا چمڑا پاک ہو جاتا ہے، وہ چمڑا خواہ حلال جانور کا ہو یا حرام کا، جانور خواہ شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا ہو یا خود اپنی طبعی موت مرا ہو۔ اس اصول عمومی کے باوجود بعض جانور ایسے ہیں جن کے چمڑے کو دباغت کے باوجود پاک قرار نہیں دیا گیا، مثلاً: خنزیر کا چمڑا، اسے نجس عین ہونے کی بنا پر پاک قرار نہیں دیا گیا اور انسان کا چمڑا، اسے بھی بوجہ اس کی کرامت و بزرگی اور شرف کے حرام ٹھہرایا گیا ہے تاکہ بےقدری سے اسے محفوظ رکھا جائے۔
➌ بعض لوگوں کی رائے ہے کہ خنزیر اور کتے پر اگر تکبیر پڑھ کر انہیں ذبح کیا جائے تو اس صورت میں وہ بھی پاک ہو جاتا ہے جبکہ یہ رائے صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح احناف کا کتے کے چمڑے کو دباغت کے بعد پاک قرار دینا بھی صائب و صحیح رائے پر مبنی نہیں ہے۔
➍ یہ ذہن نشین رہے کہ جن جانوروں کے چمڑے دباغت کے بعد پاک ہو جاتے ہیں ان کے سینگ، بال، دانت اور ہڈیاں وغیرہ کام میں لائی جا سکتی ہیں، نیز ان کی تجارت بھی کی جا سکتی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 16   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 33  
´مردار کی کھال سے دباغت کے بعد فائدہ اٹھانا`
«. . . عن عبد الله بن عباس ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا دبغ الإهاب فقد طهر . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب چمڑے کو دباغت دی جائے تو وہ پاک ہو جاتا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 33]

تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 366/105، من حديث ما لك به .]
تفقه:
➊ حلال جانوروں کی جلد کو اہاب کہتے ہیں۔ مشہور نحوی امام ابوالحسن النضر بن شمیل المازنی البصری رحمہ اللہ (متوفی 203ھ) نے فرمایا: اونٹ، گائے اور بکریوں کی کھال کو اہاب اور درندوں کی کھال کوجلد کہاجاتا ہے۔ مسائل الامام احمد اسحاق بن راہوی اولیه اسحاق بن منصور الکوسج 215/1 فقرہ: 477 وسندہ صحیح)
● تقریباً یہی بات اختصار کے ساتھ امام اسحاق بن راہویہ نے کہی ہے۔ (ایضاً: 477) نیز ملاحظ فرمائیں لسان العرب (مادة: أهب)
◄ معلوم ہوا کہ حلال جانوروں کی کھالیں دباغت سے پاک ہو جاتی ہیں۔ واضح رہے کہ اس سے درندے مثلاً کتے وغیرہ مراد نہیں ہیں۔ درندوں کی کھالوں کی ممانعت کے لئے دیکھئے الموطأ ح:52
➋ مزيد فقہی فوائد کے لئے دیکھئے الموطأ حدیث:52
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 182   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1727  
´دباغت کے بعد مردار جانوروں کی کھال کے استعمال کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک بکری مر گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری والے سے کہا: تم نے اس کی کھال کیوں نہ اتار لی؟ پھر تم دباغت دے کر اس سے فائدہ حاصل کرتے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1727]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہواکہ مردہ جانور کی کھال سے فائدہ دباغت (پکانے) کے بعد ہی اٹھایا جاسکتا ہے،
اور ان روایتوں کوجن میں دباغت (پکانے) کی قید نہیں ہے،
اسی دباغت والی روایت پر محمول کیاجائے گا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1727   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2221  
2221. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مردار بکری کے پاس سے گزرے تو فرمایا: تم نے اس کی کھال سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا؟ لوگوں نے کہا: یہ تو مردار ہے۔ آپ نے فرمایا: مردار کا صرف کھانا حرام ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2221]
حدیث حاشیہ:
حالانکہ قرآن شریف میں حُرمت عَلَیکُمُ المیتةُ (المائدة: 3)
مطلق ہے۔
اس کے سب اجزاءکو شام مل ہے، مگر حدیث سے اس کی تخصیص ہوگئی کہ مردار کا صرف کھانا حرام ہے۔
زہری نے اس حدیث سے دلیل لی، اور کہا کہ مردار کی کھال سے مطلقاً نفع اٹھانا درست ہے۔
دباغت ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو، لیکن دباغت کی قید دوسری حدیث سے نکالی گئی ہے۔
اور جمہور علماءکی وہی دلیل ہے اور امام شافعی ؒ نے مرداروں میں کتے اور سور کا استثناء کیا ہے۔
اس کی کھال دباغت سے بھی پاک نہ ہوگی اور حضرت امام ابوحنیفہ ؒ نے صرف سور اور آدمی کی کھال کو مستثنی کیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2221   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2221  
2221. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مردار بکری کے پاس سے گزرے تو فرمایا: تم نے اس کی کھال سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا؟ لوگوں نے کہا: یہ تو مردار ہے۔ آپ نے فرمایا: مردار کا صرف کھانا حرام ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2221]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ مردارکی کھال سے فائدہ اٹھانا جائز ہے، لہٰذا اس کی خریدوفروخت کو حرام نہیں فرمایا۔
(2)
بظاہر حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ مردار کی کھال سے فائدہ اٹھانا جائز ہے اگرچہ اسے رنگا نہ گیا ہو۔
امام زہری ؒ نے یہی موقف اختیار کیا ہے۔
امام بخاری ؒ کا بھی یہی موقف معلوم ہوتا ہے لیکن صحیح مسلم کی روایت میں یہ اضافہ ہے:
تم نے اس کی کھال کو رنگا کیوں نہیں اور پھر اس سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا۔
(صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 806(363)
اس سے معلوم ہوا کہ مردار کی کھال کو دباغت دیے بغیر استعمال نہیں کرنا چاہیے اور نہ اس کی خریدوفروخت ہی کرنی چاہیے۔
(3)
امام بخاری ؒ کے موقف کی تاویل بایں الفاظ ہوسکتی ہے کہ ناپختہ چمڑے کی خریدوفروخت کی جاسکتی ہے بشرطیکہ اس کی رطوبت ختم ہوجائے، خواہ وہ رنگنے سے ہو یا دھوپ لگنے سے، اس بنا پر رنگنا جواز بیع کے لیے شرط نہیں۔
اصلاحی صاحب نے اس مقام پر ایک سوال اٹھایا ہے کہ رنگنے کا اس حدیث میں کہاں ذکر آیا جس کا تذکرہ امام بخاری ؒ نے عنوان میں کیا ہے؟ (تدبرحدیث: 506/1)
اس کا جواب یہ ہے کہ اهاب اس چمڑے کو کہتے ہیں جسے رنگا نہ گیا ہو کیونکہ دباغت کے بعد اسے قربه کہتے ہیں، اس لیے اصلاحی صاحب کا سوال بے محل ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2221