سنن نسائي
صفة الوضوء -- ابواب: وضو کا طریقہ
123. بَابُ : تَرْكِ الْوُضُوءِ مِمَّا غَيَّرَتِ النَّارُ
باب: آگ کی پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو نہ کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 183
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قال: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قال: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، قال: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ فَحَدَّثَتْنِي، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يُصْبِحُ جُنُبًا مِنْ غَيْرِ احْتِلَامٍ ثُمَّ يَصُومُ". وَحَدَّثَنَا مَعَ هَذَا الْحَدِيثِ، أَنَّهَا حَدَّثَتْهُ، أَنَّهَا" قَرَّبَتْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَنْبًا مَشْوِيًّا فَأَكَلَ مِنْهُ ثُمَّ قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ".
سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا، تو انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احتلام سے نہیں (بلکہ جماع سے) صبح کرتے، پھر روزہ رکھتے، (محمد بن یوسف کہتے ہیں:) اور ہم سے سلیمان بن یسار نے اس حدیث کے ساتھ (یہ بھی) بیان کیا کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ان سے بیان کیا کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھنا ہوا پہلو (گوشت کا ٹکڑا) پیش کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے کھایا، پھر نماز کے لیے کھڑے ہوئے اور وضو نہیں کیا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف: 18160)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الصوم 13 (1109)، مسند احمد 6/306 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 183  
´آگ کی پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو نہ کرنے کا بیان۔`
سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا، تو انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احتلام سے نہیں (بلکہ جماع سے) صبح کرتے، پھر روزہ رکھتے، (محمد بن یوسف کہتے ہیں:) اور ہم سے سلیمان بن یسار نے اس حدیث کے ساتھ (یہ بھی) بیان کیا کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ان سے بیان کیا کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھنا ہوا پہلو (گوشت کا ٹکڑا) پیش کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے کھایا، پھر نماز کے لیے کھڑے ہوئے اور وضو نہیں کیا۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 183]
183۔ اردو حاشیہ:
➊ احتلام یا جماع کی بنا پر جنابت کسی بھی وقت ہو سکتی ہے، اس لیے شریعت نے گنجائش رکھی ہے کہ اگر کسی کو یہ صورت حال پیش آگئی اور وہ روزہ رکھنا چاہتا ہے، غسل کا وقت نہیں، اگر غسل کرتا ہے تو سحری رہ جائے گی تو اسے اجازت ہے کہ اسی طرح روزہ رکھ لے اور بعد میں نماز سے پہلے نہالے۔ اگر روزے کے دوران میں بھی کسی کو احتلام ہو جائے تو روزے کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
«لم یمس ماء» ظاہر معنی بھی مراد ہو سکتا ہے۔ گویا کلی بھی نہیں کہ کیونکہ کلی فرض نہیں اور ممکن ہے کہ یہ کنایہ ہو وضو نہ کرنے سے، یہی بات واضح ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 183