سنن نسائي
كتاب الصلاة -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
14. بَابُ : الْمُحَافَظَةِ عَلَى صَلاَةِ الْعَصْرِ
باب: نماز عصر کی محافظت کا بیان۔
حدیث نمبر: 474
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قال: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قال: أَخْبَرَنِي قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي حَسَّانَ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" شَغَلُونَا عَنِ الصَّلَاةِ الْوُسْطَى حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (جنگ خندق کے موقع پر) فرمایا: ان لوگوں (کافروں) نے ہمیں بیچ والی نماز سے مشغول کر دیا یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 98 (2931) مطولاً، المغازي 29 (4111) مطولاً، تفسیر البقرة 42 (4533)، الدعوات 58 (6396)، صحیح مسلم/المساجد 35 (627)، 36 (627) مطولاً، سنن ابی داود/الصلاة 5 (409) مطولاً، سنن الترمذی/تفسیر البقرة (2984) مطولاً، وقد اخرجہ: (تحفة الأشراف: 10232)، مسند احمد 1/79، 122، 135، 137، 144، 152، 153، 154، سنن الدارمی/الصلاة 28 (1268) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 474  
´نماز عصر کی محافظت کا بیان۔`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (جنگ خندق کے موقع پر) فرمایا: ان لوگوں (کافروں) نے ہمیں بیچ والی نماز سے مشغول کر دیا یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 474]
474 ۔ اردو حاشیہ:
➊ظاہر ہے غروب شمس سے پہلے عصر ہی کی نماز ہے۔ اسے ہی آپ نے صلاۃ وسطیٰ کہا ہے۔ صحیحین کی روایت میں اس کی صراحت ہے۔
➋غزوۂ احزاب، یعنی جنگ خندق کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے تھے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4111، وصحیح مسلم، المساجد، حدیث: 627]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 474   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 409  
´عصر کے وقت کا بیان۔`
علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خندق کے روز فرمایا: ہم کو انہوں نے (یعنی کافروں نے) نماز وسطیٰ (یعنی عصر) سے روکے رکھا، اللہ ان کے گھروں اور قبروں کو جہنم کی آگ سے بھر دے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 409]
409۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ حدیث آیت کریمہ: «حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ» [البقره: 238]
نماز وں کی محافت اور پابندی کرو اور درمیانی (یا افضل) نماز کی، اور اللہ کے لیے باادب ہو کر کھڑے ہوؤ۔ کی تفسیر کرتی ہے کہ اس میں صلوۃ وسطی سے مرا د عصر کی نماز ہے۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی رحیم وشفیق شخصیت کی زبان سے اس قسم کی شدید بددعا کا جاری ہونا واضح کرتا ہے کہ کسی ایک نماز کا بروقت ادا نہ ہونا بھی دین میں بہت بڑا خسارہ ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 409   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث684  
´نماز عصر کی محافظت۔`
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خندق کے دن فرمایا: اللہ ان کافروں کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے، جیسے کہ ان لوگوں نے ہمیں نماز وسطیٰ (عصر کی نماز) کی ادائیگی سے باز رکھا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 684]
اردو حاشہ:
(1)
جو شخص بددعا کا مستحق ہو اسے بددعا دینا جائز ہے۔

(2)
دینی نقصان دنیاوی نقصان سے زیادہ اہم ہے۔

(3)
نماز عصر کی اہمیت دوسری نمازوں سے زیادہ ہے۔

(4)
اس واقعہ کا یہ پہلو انتہائی قابل توجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جنھیں اللہ تعالی نے (رحمة للعالمين)
فرمایا ہے جب ان کی زندگی کا شدید ترین دن تھا یعنی جب نبی کریمﷺ طائف تشریف لے گئےاور مشرکین نے نہ صرف یہ کی آپ ﷺ کی بات سنی اور انتہائی گستاخی سے پیش آئے بلکہ بچوں کو نبی کریمﷺ کے پیچھے لگا دیا جنہوں نے اس حد تک سنگ ہاری کی کہ نبی اکرمﷺ کا جسد اطہر لہولہان ہوگیا اس وقت بھی آپ نے ان کو بددعا دینے سے اجتناب کیا لیکن جنگ خندق میں مصروفیت کی وجہ سے نماز عصر رہ گئی تو طائف میں خاموش رہنے والی زبان سے بھی بددعا نکل گئی۔
اور بددعا بھی اتنی شدید کہ اللہ کرے کہ ان کے گھروں میں آسمان سے آگ برسے اور جب مرجائیں تو قبروں میں بھی آگ کا ایندھن بنے رہیں۔
ان لوگوں کو غور کرنا چاہیے جو محض کاہلی کی وجہ سے یا کھیل کود میں مصروفیت کی وجہ سے یا کاروبار یا کسی دوسری مشغولیت کی وجہ سے نماز چھوڑدیتے ہیں ان کا یہ عمل آپﷺ کی نظر میں کس قدر قابل نفرت اور کتنا عظیم جرم ہے۔
اللہ ہمیں اپنے غضب سے محفوظ رکھے۔
آمین۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 684