سنن نسائي
كتاب المواقيت -- کتاب: اوقات نماز کے احکام و مسائل
8. بَابُ : تَعْجِيلِ الْعَصْرِ
باب: عصر جلدی پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 511
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو عَلْقَمَةَ الْمَدَنِيُّ، قال: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، قال:" صَلَّيْنَا فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ ثُمَّ انْصَرَفْنَا إِلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ فَوَجَدْنَاهُ يُصَلِّي، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ لَنَا: أَصَلَّيْتُمْ؟ قُلْنَا: صَلَّيْنَا الظُّهْرَ، قَالَ: إِنِّي صَلَّيْتُ الْعَصْرَ، فَقِالُوا لَهُ: عَجَّلْتَ، فَقَالَ: إِنَّمَا أُصَلِّي كَمَا رَأَيْتُ أَصْحَابِي يُصَلُّونَ".
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ ہم نے عمر بن عبدالعزیز کے عہد میں نماز پڑھی، پھر انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہیں (بھی) نماز پڑھتے ہوئے پایا، جب وہ نماز پڑھ کر پلٹے تو انہوں نے ہم سے پوچھا: تم نماز پڑھ چکے ہو؟ ہم نے کہا: (ہاں) ہم نے ظہر پڑھ لی ہے، انہوں نے کہا: میں نے تو عصر پڑھی ہے، تو لوگوں نے ان سے کہا: آپ نے جلدی پڑھ لی، انہوں نے کہا: میں اسی طرح پڑھتا ہوں جیسے میں نے اپنے اصحاب کو پڑھتے دیکھا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 1718) (حسن الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 510  
´عصر جلدی پڑھنے کا بیان۔`
ابوامامہ بن سہل کہتے ہیں: ہم نے عمر بن عبدالعزیز کے ساتھ ظہر پڑھی پھر ہم نکلے، یہاں تک کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، تو ہم نے انہیں عصر پڑھتے ہوئے پایا، تو میں نے پوچھا: میرے چچا! آپ نے یہ کون سی نماز پڑھی ہے؟ انہوں نے کہا: عصر کی، یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہے جسے ہم لوگ پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 510]
510 ۔ اردو حاشیہ: خلفائے بنوامیہ ظہر کی نماز عموماً لیٹ پڑھا کرتے تھے حتیٰ کہ آخر وقت آجاتا تھا۔ اس واقعے کے وقت حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ مدینہ منورہ کے گورنر تھے۔ خلفاء کی اتباع میں وہ بھی نماز لیٹ کرتے تھے۔ جب انہیں بتایا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز جلدی پڑھا کرتے تھے تو انہوں نے تاخیر چھوڑ دی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 510   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 511  
´عصر جلدی پڑھنے کا بیان۔`
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ ہم نے عمر بن عبدالعزیز کے عہد میں نماز پڑھی، پھر انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہیں (بھی) نماز پڑھتے ہوئے پایا، جب وہ نماز پڑھ کر پلٹے تو انہوں نے ہم سے پوچھا: تم نماز پڑھ چکے ہو؟ ہم نے کہا: (ہاں) ہم نے ظہر پڑھ لی ہے، انہوں نے کہا: میں نے تو عصر پڑھی ہے، تو لوگوں نے ان سے کہا: آپ نے جلدی پڑھ لی، انہوں نے کہا: میں اسی طرح پڑھتا ہوں جیسے میں نے اپنے اصحاب کو پڑھتے دیکھا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 511]
511 ۔ اردو حاشیہ: ان تمام روایات سے یہ بات صراحتاً معلوم ہو گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز وقت شروع ہوتے ہی پڑھ لیا کرتے تھے۔ اور یہی سنت ہے۔ اگرچہ سورج زرد ہونے سے پہلے پہلے نماز ادا کرنا بلاکراہت جائز ہے مگر اولیٰ نہیں، لہٰذا عصر کی نماز اول وقت میں پڑھنی چاہیے۔ کسی مصروفیت کی بنا پر کبھی کبھار لیٹ ہو تو کوئی حرج نہیں۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 511