سنن نسائي
كتاب المواقيت -- کتاب: اوقات نماز کے احکام و مسائل
9. بَابُ : التَّشْدِيدِ فِي تَأْخِيرِ الْعَصْرِ
باب: عصر تاخیر سے پڑھنے کی وعید کا بیان۔
حدیث نمبر: 512
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرِ بْنِ إِيَاسِ بْنِ مُقَاتِلِ بْنِ مُشَمْرِجِ بْنِ خَالِدٍ، قال: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قال: حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ، أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ فِي دَارِهِ بِالْبَصْرَةِ حِينَ انْصَرَفَ مِنَ الظُّهْرِ وَدَارُهُ بِجَنْبِ الْمَسْجِدِ، فَلَمَّا دَخَلْنَا عَلَيْهِ، قَالَ: أَصَلَّيْتُمُ الْعَصْرَ؟ قُلْنَا: لَا، إِنَّمَا انْصَرَفْنَا السَّاعَةَ مِنَ الظُّهْرِ، قَالَ: فَصَلُّوا الْعَصْرَ، قَالَ: فَقُمْنَا فَصَلَّيْنَا فَلَمَّا انْصَرَفْنَا، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" تِلْكَ صَلَاةُ الْمُنَافِقِ، جَلَسَ يَرْقُبُ صَلَاةَ الْعَصْرِ حَتَّى إِذَا كَانَتْ بَيْنَ قَرْنَيِ الشَّيْطَانِ قَامَ فَنَقَرَ أَرْبَعًا لَا يَذْكُرُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا".
علاء کہتے ہیں کہ وہ جس وقت ظہر پڑھ کر پلٹے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس بصرہ میں ان کے گھر گئے، اور ان کا گھر مسجد کے بغل میں تھا، تو جب ہم لوگ ان کے پاس آئے تو انہوں نے پوچھا: کیا تم لوگوں نے عصر پڑھ لی؟ ہم نے کہا: نہیں، ہم لوگ ابھی ظہر پڑھ کر پلٹے ہیں، تو انہوں نے کہا: تو عصر پڑھ لو، ہم لوگ کھڑے ہوئے اور ہم نے عصر پڑھی، جب ہم پڑھ چکے تو انس رضی اللہ عنہ کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: یہ منافق کی نماز ہے کہ بیٹھا عصر کا انتظار کرتا رہے یہاں تک کہ جب سورج شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان ہو جائے، (غروب کے قریب ہو جائے) تو اٹھے اور چار ٹھونگیں مار لے، اور اس میں اللہ کا ذکر معمولی سا کرے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 34 (622)، سنن ابی داود/الصلاة 5 (413)، سنن الترمذی/الصلاة 6 (160)، موطا امام مالک/القرآن10(46)، (تحفة الأشراف: 1122)، مسند احمد 3/102، 103، 149، 185، 247 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 512  
´عصر تاخیر سے پڑھنے کی وعید کا بیان۔`
علاء کہتے ہیں کہ وہ جس وقت ظہر پڑھ کر پلٹے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس بصرہ میں ان کے گھر گئے، اور ان کا گھر مسجد کے بغل میں تھا، تو جب ہم لوگ ان کے پاس آئے تو انہوں نے پوچھا: کیا تم لوگوں نے عصر پڑھ لی؟ ہم نے کہا: نہیں، ہم لوگ ابھی ظہر پڑھ کر پلٹے ہیں، تو انہوں نے کہا: تو عصر پڑھ لو، ہم لوگ کھڑے ہوئے اور ہم نے عصر پڑھی، جب ہم پڑھ چکے تو انس رضی اللہ عنہ کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: یہ منافق کی نماز ہے کہ بیٹھا عصر کا انتظار کرتا رہے یہاں تک کہ جب سورج شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان ہو جائے، (غروب کے قریب ہو جائے) تو اٹھے اور چار ٹھونگیں مار لے، اور اس میں اللہ کا ذکر معمولی سا کرے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 512]
512 ۔ اردو حاشیہ:
➊سورج شیطان کے دوسینگوں کے درمیان ہونے سے مراد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ غروب کے قریب ہوتا ہے، اس وقت سورج کے پجاری اس کی پوجا کرتے ہیں، یہ شیطانی کام ہے، اس لیے مندرجہ بالا لفظوں سے بیان فرمایا۔ بعض اہل علم نے اسے حقیقت پر محمول کیا ہے کہ طلوع، غروب اور استوا (سر پرہونے) کے قریب شیطان سورج کے پاس آکر کھڑا ہوتا ہے، اس طرح کہ سورج اس کے دو سینگوں کے درمیان ہوتا ہے، تاکہ سورج کے پجاری اس کی بھی پوجا کریں۔ شاید اسی بنا پر مسلمانوں کو ان اوقات میں نماز پڑھنے سے روک دیا گیا ہے۔ واللہ أعلم۔
چار ٹھونگے (چونچیں) مارتا ہے۔ چونکہ سورج تقریباً غروب ہو رہا ہوتا ہے، اس لیے وہ جلدی جلدی نماز پڑھتا ہے۔ دیکھنے میں ایسے لگتا ہے جیسے کوا ٹھونگے مار رہا ہے۔ ارکان کے اذکارواور اد بھی صحیح طرح نہیں پڑھتا کیونکہ رغبت نہیں ہوتی، لہٰذا کچھ پڑھا گیا، کچھ رہ گیا۔ چونکہ رکعتیں چار ہیں، لہٰذا چار ٹھونگے کہا گیا ہے۔ ان میں سجدے گو آٹھ ہیں مگر جلد جلد کرنے کی وجہ سے گویا دونوں مل کر ایک ٹھونگا مارنے کے برابر ہوئے۔
➌مومن کی نماز اطمینان، خشوع و خضوع اور اذکار مسنونہ سے مزین ہوتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 512   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 413  
´عصر کے وقت کا بیان۔`
علاء بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ ہم ظہر کے بعد انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو دیکھا کہ وہ عصر پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں، جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے نماز کے جلدی ہونے کا ذکر کیا یا خود انہوں نے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: یہ منافقوں کی نماز ہے، یہ منافقوں کی نماز ہے، یہ منافقوں کی نماز ہے کہ آدمی بیٹھا رہے یہاں تک کہ جب سورج زرد ہو جائے اور وہ شیطان کی دونوں سینگوں کے بیچ ہو جائے یا اس کی دونوں سینگوں پر ہو جائے ۱؎ تو اٹھے اور چار ٹھونگیں لگا لے اور اس میں اللہ کا ذکر صرف تھوڑا سا کرے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 413]
413۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ حدیث گویا پہلی حدیث کی شرح ہے کہ اگر کسی سے عذر شرعی کی بنا پر تاخیر ہوئی ہو اور اس نے سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے ایک رکعت پالی ہو تو اس نے گویا وقت میں نماز پالی اور یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں کے لیے خاص رحمت ہے۔ اور اگر بغیر عذر کے تاخیر کرے تو یہ منافقت کی علامت ہے۔
سورج کا شیطان کے دو سینگوں کے درمیان ہونا کے مفہوم میں اختلاف ہے۔ علامہ نووی  رحمہ اللہ کہتے ہیں: کہا جاتا ہے کہ یہ حقیقت ہے اور سورج کے طلوع و غروب کے وقت شیطان سورج کے سامنے آ جاتا ہے ایسے لگتا ہے گویا سورج اس کے سر کے درمیان سے نکل رہا ہے یا غروب ہو رہا ہے۔ اور سورج کے پجاری بھی ان اوقات میں اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں، تو یہ سمجھتا ہے کہ اسے ہی سجدہ کیا جا رہا ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دو سینگوں سے مراد مجازاً شیطان کا بلند ہونا اور شیطانی قوتوں کا غلبہ اور کفار طلوع و غروب کے اوقات میں سورج کو سجدہ کرتے ہیں . . . . . . انتھی «والله أعلم»
➌ استثنائی صورتوں کو قائدہ یا کلیہ بنانا چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 413