سنن نسائي
كتاب المواقيت -- کتاب: اوقات نماز کے احکام و مسائل
16. بَابُ : كَرَاهِيَةِ النَّوْمِ بَعْدَ صَلاَةِ الْمَغْرِبِ
باب: مغرب کے بعد سونا مکروہ ہے۔
حدیث نمبر: 526
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قال: حَدَّثَنَا عَوْفٌ، قال: حَدَّثَنِي سَيَّارُ بْنُ سَلَامَةَ، قال: دَخَلْتُ عَلَى أَبِي بَرْزَةَ فَسَأَلَهُ أَبِي: كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الْمَكْتُوبَةَ؟ قَالَ: كَانَ" يُصَلِّي الْهَجِيرَ الَّتِي تَدْعُونَهَا الْأُولَى حِينَ تَدْحَضُ الشَّمْسُ، وَكَانَ يُصَلِّي الْعَصْرَ حِينَ يَرْجِعُ أَحَدُنَا إِلَى رَحْلِهِ فِي أَقْصَى الْمَدِينَةِ وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ، وَنَسِيتُ مَا قَالَ فِي الْمَغْرِبِ، وَكَانَ يَسْتَحِبُّ أَنْ يُؤَخِّرَ الْعِشَاءَ الَّتِي تَدْعُونَهَا الْعَتَمَةَ وَكَانَ يَكْرَهُ النَّوْمَ قَبْلَهَا وَالْحَدِيثَ بَعْدَهَا، وَكَانَ يَنْفَتِلُ مِنْ صَلَاةِ الْغَدَاةِ حِينَ يَعْرِفُ الرَّجُلُ جَلِيسَهُ، وَكَانَ يَقْرَأُ بِالسِّتِّينَ إِلَى الْمِائَةِ".
سیار بن سلامہ کہتے ہیں کہ میں ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو میرے والد نے ان سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز کیسے (یعنی کب) پڑھتے تھے؟ انہوں نے کہا: آپ ظہر جسے تم لوگ پہلی نماز کہتے ہو اس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا، اور عصر پڑھتے جب ہم میں سے مدینہ کے آخری کونے پر رہنے والا آدمی اپنے گھر لوٹ کر آتا، تو سورج تیز اور بلند ہوتا، مغرب کے سلسلہ میں جو انہوں نے کہا میں اسے بھول گیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کو جسے تم لوگ عتمہ کہتے ہو مؤخر کرنا پسند کرتے تھے، اور اس سے پہلے سونا اور اس کے بعد گفتگو کرنا ناپسند فرماتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر سے اس وقت فارغ ہوتے جب آدمی اپنے ساتھ بیٹھنے والے کو پہچاننے لگتا، اور آپ اس میں ساٹھ سے سو آیات تک پڑھتے تھے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 496 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 496  
´ظہر کے اول وقت کا بیان۔`
سیار بن سلامہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے سنا وہ ابوبرزہ رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق سوال کر رہے تھے، شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے (سیار بن سلامہ سے) پوچھا: آپ نے اسے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: (میں نے اسی طرح سنا ہے) جس طرح میں اس وقت آپ کو سنا رہا ہوں، میں نے اپنے والد سے سنا وہ (ابوبرزہ سے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق سوال کر رہے تھے، تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم آدھی رات تک عشاء کی تاخیر کی پرواہ نہیں کرتے تھے، اور اس سے پہلے سونے کو اور اس کے بعد گفتگو کرنے کو پسند نہیں کرتے تھے، شعبہ کہتے ہیں: اس کے بعد میں پھر سیار سے ملا اور میں نے ان سے پوچھا، تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اس وقت پڑھتے جس وقت سورج ڈھل جاتا، اور عصر اس وقت پڑھتے کہ آدمی (عصر پڑھ کر) مدینہ کے آخری کنارہ تک جاتا، اور سورج زندہ رہتا ۱؎ اور مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے مغرب کا کون سا وقت ذکر کیا، اس کے بعد میں پھر ان سے ملا تو میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر پڑھتے تو آدمی پڑھ کر پلٹتا اور اپنے ساتھی کا جسے وہ پہچانتا ہو چہرہ دیکھتا تو پہچان لیتا، انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر میں ساٹھ سے سو آیتوں کے درمیان پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 496]
496 ۔ اردو حاشیہ:
➊ظہر کی نماز کا اول وقت متفق علیہ ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں اور وہ ہے زوال شمس۔
➋عشاء کی نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم عمومی طور پر ثلث لیل (تہائی رات) تک پڑھا کرتے تھے۔ کبھی کبھار نصف رات تک مؤخر کر دیتے۔ تمام احادیث کو ملانے سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ راجح قول کے مطابق نصف رات عشاء کی نماز کا آخری وقت ہے۔
➌سورج کے تیز ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سورج ابھی زرد نہیں ہوتا تھا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 496   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 526  
´مغرب کے بعد سونا مکروہ ہے۔`
سیار بن سلامہ کہتے ہیں کہ میں ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو میرے والد نے ان سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز کیسے (یعنی کب) پڑھتے تھے؟ انہوں نے کہا: آپ ظہر جسے تم لوگ پہلی نماز کہتے ہو اس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا، اور عصر پڑھتے جب ہم میں سے مدینہ کے آخری کونے پر رہنے والا آدمی اپنے گھر لوٹ کر آتا، تو سورج تیز اور بلند ہوتا، مغرب کے سلسلہ میں جو انہوں نے کہا میں اسے بھول گیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کو جسے تم لوگ عتمہ کہتے ہو مؤخر کرنا پسند کرتے تھے، اور اس سے پہلے سونا اور اس کے بعد گفتگو کرنا ناپسند فرماتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر سے اس وقت فارغ ہوتے جب آدمی اپنے ساتھ بیٹھنے والے کو پہچاننے لگتا، اور آپ اس میں ساٹھ سے سو آیات تک پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 526]
526 ۔ اردو حاشیہ:
➊مغرب کی نماز کے بعد سونا اس لیے منع ہے کہ اس سے عشاء کی نماز فوت ہو جانے کا خطرہ ہے اور بعد میں باتیں کرنا س لیے منع ہے کہ اس سے فجر کی نماز وقت یا جماعت سے رہ جانے کا خدشہ ہے۔
➋ظہر کو بعض لوگ اولیٰ کہتے تھے اور عصر کو آخرہ کیونکہ عصر بعد میں پڑھی جاتی ہے اور ظہر پہلے۔ فارسی میں بھی ظہر کو اسی لیے پیشین اور عصر کو دیگر کہا جاتا ہے۔ عشاء چونکہ اندھیرے میں پڑھی جاتی ہے، اس لیے بعض لوگ اسے عتمہ (اندھیرے کی نماز) کہتے تھے، پھر وہ مغرب کو عشاء کہہ دیتے تھے۔ اس سے آپ نے سختی سے منع فرما دیا کیونکہ اس سے مغرب اور عشاء کے احکام میں اشتباہ پیدا ہوتا تھا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 526   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث701  
´عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات چیت کرنے کی ممانعت۔`
ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء دیر سے پڑھنا پسند فرماتے تھے، اور اس سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند کرتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 701]
اردو حاشہ:
(1)
عشاء کی نماز سے پہلے سو جانے سے خطرہ ہے کہ نماز کے لیے آنکھ نہ کھلےاور نماز فوت ہو جائے یا آنکھ کھلے تو سستی کا غلبہ ہو جس کی وجہ سے عشاء کی نماز توجہ اور دل جمعی کے ساتھ نہ پڑھی جا سکے۔
اس لیے نماز پڑھ کر سونا چاہیے۔

(2)
عشاء کے بعد باتیں کرنا بھی اس لیے نامناسب ہے کہ اس کی وجہ سے نماز فجر کے لیے اٹھنے میں تاخیر ہو جانے کا خطرہ ہے البتہ کوئی ضروری بات چیت یا علمی مسائل کا بیان اور وعظ ونصیحت جائز ہے۔ (صحیح البخاری، العلم، باب العلم والعظمة بااليل وباب السمر في العلم، حديث: 116، 115)
تاہم خیال رکھنا چاہیے کہ اس کا سلسلہ زیادہ طویل نہ ہو جائے تاکہ فجر کی نماز بروقت ادا کی جا سکے۔
بنا بریں دینی وتبلیغی جلسوں کا رات گئے تک جاری رہنا شرعاً محل نظر ہے۔
اس عام رواج کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 701