سنن نسائي
كتاب المواقيت -- کتاب: اوقات نماز کے احکام و مسائل
30. بَابُ : مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ الصَّلاَةِ
باب: جس نے نماز کی ایک رکعت پا لی۔
حدیث نمبر: 559
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ التِّرْمِذِيُّ، قال: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنْ صَلَاةٍ مِنَ الصَّلَوَاتِ، فَقَدْ أَدْرَكَهَا، إِلَّا أَنَّهُ يَقْضِي مَا فَاتَهُ".
سالم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی نماز کی ایک رکعت پالی اس نے نماز پالی البتہ وہ چھٹی ہوئی رکعتوں کو پڑھ لے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح) (یہ روایت مرسل ہے، مگر پچھلی روایت سے تقویت پا کر یہ بھی صحیح ہے)»

قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 559  
´جس نے نماز کی ایک رکعت پا لی۔`
سالم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی نماز کی ایک رکعت پالی اس نے نماز پالی البتہ وہ چھٹی ہوئی رکعتوں کو پڑھ لے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 559]
559 ۔ اردو حاشیہ:
➊ اس سے قبل کی احادیث صبح اور عصر کے بارے میں تھیں۔ اس باب کے تحت آنے والی احادیث عام نماز کے بارے میں ہیں کہ جس نماز کی بھی ایک رکعت وقت میں پڑھ لی جائے اور باقی رکعات بھی ساتھ پڑھ لی جائیں تو اگرچہ باقی رکعات وقت کے بعد ادا ہوئی ہیں مگر آغاز کا لحاظ رکھتے ہوئے نماز، قضا کی بجائے ادا معتبر ہو گی۔
➋ مزید یہ معلوم ہوا کہ نماز کے آخری وقت میں جو مسافر ہے، وہ سفر کی نماز ادا کرے گا اور جو اس وقت مقیم ہے، وہ گھر کی نماز پڑھے گا، خواہ بعد ہی میں پڑھے۔ اس وقت موت آجائے تو وہ نماز معاف ہو جائے گی اور اگر اس وقت کوئی بالغ ہو جائے یا حیض رک جانے یا مجنون تندرست ہو جائے تو وہ نماز ان پر واجب ہو گی، بشرطیکہ ایک رکعت کا وقت باقی ہو۔
➌ جمعہ کی نماز میں اگر کوئی شخص ایک رکعت میں مل جائے تو وہ جمعہ کی نماز پڑھے گا اور اگر ایک رکعت سے کم میں ملے تو اس حدیث کی رو سے جمعے کی بجائے ظہر کی چار رکعت پڑھے گا، مگر علمائے احناف کے نزدیک اگر جمعہ کی نماز کا سلام پھیرنے سے قبل کسی وقت بھی مل جائے تو جمعہ کی نماز (دورکعت) ہی پڑھے گا۔ مذکورہ احادیث میں ایک رکعت کی تصریح ہے، لہٰذا نص کے مقابلے میں عقلی دلیل غیر معتبر ہے۔
➍ اگر کوئی شخص جماعت کے ساتھ ایک رکعت پالے، باقی بعد میں پڑھے تو کہا جائے گا کہ اس نے نماز باجماعت پڑھی ہے اگرچہ شروع سے ساتھ ملنے والا اور یہ شخص ثوابِ جماعت میں برابر نہیں ہو سکتے۔
➎ اگر کوئی شخص ایک رکعت کا وقت پائے تو اس پر وہ نماز واجب ہو گی اگر کم پائے تو نماز واجب نہ ہو گی۔ احناف کا خیال ہے کہ اگر تکبیرتحریمہ کا وقت پالے، تب بھی نماز واجب ہو گی مگر یہ قول ان احادیث کے خلاف ہے۔
➏ بعض اہل علم نے یہاں رکعت کو رکوع کے معنی میں اور صلاۃ کو رکعت کے معنی میں کر کے یہ مفہوم نکالا ہے کہ جس شخص نے امام کے ساتھ رکوع پالیا اس نے رکعت پالی، مگر سوچنے کی بات ہے کہ کیا یہ معنی ایک خالی الذہن شخص کی سمجھ میں آتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ تمام الفاظ کے حقیقی معانی کو چھوڑ کر مجازی معنی مراد لینے کی دلیل کیا ہے؟ بغیر دلیل کے تاویل درست نہیں۔ بعض احادیث میں «رکعة واحدة» کے لفظ بھی ہیں جو اس تاویل کا صراحتاً رد کرتے ہیں۔ باقی رہی اس مسئلے کی تحقیق کہ رکوع کی رکعت معتبر ہے یا نہیں؟ تو وہ اپنے مقام پر آئے گی۔ ان شاء اللہ۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 559