سنن نسائي
كتاب المواقيت -- کتاب: اوقات نماز کے احکام و مسائل
35. بَابُ : النَّهْىِ عَنِ الصَّلاَةِ بَعْدَ الْعَصْرِ
باب: عصر کے بعد نماز کی ممانعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 571
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ الْمُخَرِّمِيُّ، قال: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ عَنْبَسَةَ، قال: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، قال: قالت عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَوْهَمَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، إِنَّمَا نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا تَتَحَرَّوْا بِصَلَاتِكُمْ طُلُوعَ الشَّمْسِ وَلَا غُرُوبَهَا، فَإِنَّهَا تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ سے وہم ہوا ہے ۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو صرف یہ فرمایا ہے: سورج نکلتے یا ڈوبتے وقت تم اپنی نماز کا ارادہ نہ کرو، اس لیے کہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان نکلتا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 53 (833)، (تحفة الأشراف: 16158)، مسند احمد 6/ 124، 255 (کلاھما بدون قولہ ’’فإنھا…‘‘ (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقصود یہ ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ سمجھتے تھے کہ فجر اور عصر کے بعد مطلقاً نماز پڑھنے کی ممانعت ہے، یہ صحیح نہیں بلکہ ممانعت اس بات کی ہے کہ آدمی نماز کے لیے ان دونوں وقتوں کو خاص کر لے، اور یہ عقیدہ رکھے کہ ان دونوں وقتوں میں نماز پڑھنا اولیٰ و انسب ہے، یا یہ ممانعت سورج کے نکلنے یا ڈوبنے کے وقت کے ساتھ خاص ہے نہ کہ عصر اور فجر کے بعد مطلقاً، لیکن صحیح قول یہ ہے کہ یہ ممانعت مطلقاً ہے کیونکہ ابوسعید اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم کی روایات میں علی الاطلاق ممانعت وارد ہے، اور بعض روایات میں جو تقیید ہے وہ اطلاق کی نفی پر دلالت نہیں کر رہی ہیں، نووی نے دونوں روایتوں میں تطبیق اس طرح دی ہے کہ تحری والی روایت اس بات پر محمول ہو گی کہ فرض نماز کو اس قدر مؤخر کیا جائے کہ سورج کے نکلنے یا ڈوبنے کا وقت ہو جائے، اور مطلقاً ممانعت والی روایت ان صلاتوں پر محمول ہو گی جو سببی نہیں ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله فإنها ...
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 571  
´عصر کے بعد نماز کی ممانعت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ سے وہم ہوا ہے ۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو صرف یہ فرمایا ہے: سورج نکلتے یا ڈوبتے وقت تم اپنی نماز کا ارادہ نہ کرو، اس لیے کہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان نکلتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 571]
571 ۔ اردو حاشیہ:
➊حضرت عمررضی اللہ عنہ کا عصر کے بعد لوگوں کو نماز سے روکنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح نہی کی بنا پر تھا اور وہ عصر کے بعد مغرب تک کے وقت میں نماز پڑھنا ناجائز سمجھتے تھے لیکن اگر دلائل کا جائزہ لیا جائے تو عصر کے بعد نوافل پڑھنے کے بارے میں قدرے تفصیل ہے۔ وہ اس طرح کہ عصر سے مغرب تک کے پورے وقت میں نوافل پڑھنا ناجائز نہیں ہے بلکہ جب سورج زردی مائل ہو جائے تو اس کے بعد غروب آفتاب تک کا وقت، وقت ممنوع ہے ورنہ جب تک سورج چمک رہا ہو عصر کے بعد بھی نوافل جائز ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہی مقصد تھا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو نہی کا مطلب سمجھنے میں غلط فہمی ہوئی ہے، وہ اس کا مطلب یہ سمجھے ہیں کہ عصر سے مغرب تک کا پورا وقت، وقت ممنوع ہے، حالانکہ ایسا نہیں بلکہ سورج زرد ہونے کے بعد سے غروب تک کے وقت میں نوافل پڑھنا ممنوع ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے موقف کی تائید آئندہ باب میں آنے والی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی حدیث [574]
سے بھی ہوتی ہے۔
➋شیطان کے سینگوں میں سورج طلوع ہونے کی بحث کے لیے دیکھیے حدیث نمبر560۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 571