صحيح البخاري
كِتَاب الشُّفْعَةِ -- کتاب: شفعہ کے بیان میں
3. بَابُ أَيُّ الْجِوَارِ أَقْرَبُ:
باب: کون پڑوسی زیادہ حقدار ہے۔
حدیث نمبر: 2259
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ. ح وحَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللهِ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ طَلْحَةَ بْنَ عَبْدِ اللهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ لِي جَارَيْنِ فَإِلَى أَيِّهِمَا أُهْدِي؟ قَالَ: إِلَى أَقْرَبِهِمَا مِنْكِ بَابًا".
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا (دوسری سند) اور مجھ سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے شبابہ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابوعمران نے بیان کیا، کہا کہ میں نے طلحہ بن عبداللہ سے سنا، اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا یا رسول اللہ! میرے دو پڑوسی ہیں، میں ان دونوں میں سے کس کے پاس ہدیہ بھیجوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کا دروازہ تجھ سے زیادہ قریب ہو۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2259  
2259. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! میرے دو پڑوسی ہیں، ان میں سے پہلے کس کو تحفہ بھیجوں؟ آپ نے فرمایا: جس کا دروازہ تم سے زیادہ قریب ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2259]
حدیث حاشیہ:
قسطلانی ؒ نے کہا کہ اس سے شفعہ کا جواز ثابت نہیں ہوتا۔
حافظ ؒنے کہا کہ ابورافع کی حدیث ہمسایہ کے لیے حق شفعہ ثابت کرتی ہے اب اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ نکالا کہ اگر کئی ہمسائے ہوں تو وہ ہمسایہ حق شفعہ میں مقدم سمجھا جائے گا جس کا دروازہ جائیداد مبیعہ سے زیادہ نزدیک ہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2259   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2259  
2259. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! میرے دو پڑوسی ہیں، ان میں سے پہلے کس کو تحفہ بھیجوں؟ آپ نے فرمایا: جس کا دروازہ تم سے زیادہ قریب ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2259]
حدیث حاشیہ:
(1)
ابن بطال ؒ کہتے ہیں:
اس حدیث سے پڑوسی کےلیے حق شفعہ ثابت نہیں ہوتا کیونکہ حضرت عائشہ ؓ نے تو یہ سوال کیا تھا کہ اگر کئی پڑوسی ہوں تو پہلے کس کودوں؟ اسی بات کو امین احسن اصلاحی نے نقل کیا ہے کہ جو پڑوسی زیادہ نزدیک ہے وہ زیادہ حق دار ہے کہ تحفہ اس کو بھیجا جائے لیکن زمین یا جائیداد کی بیع کا معاملہ تحفہ لینے دینے سے بالکل مختلف ہے۔
آگے لکھا ہے کہ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ پڑوسی کو ہدیہ دینے کی اس روایت کو امام صاحب یہاں کیوں لائے ہیں اور شفعے سے اس کا کیا تعلق ہے؟ (تدبرحدیث: 544/1)
کاش! حضرت اس مقام پر فتح الباری دیکھ لیتے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے ابن بطال کا یہی اعتراض نقل کرکے اس کا جواب بھی دیا ہے، فرماتے ہیں:
امام بخاری ؒ نے حدیث ابو رافع سے پڑوسی کےلیے حق شفعہ ثابت کیا ہے اور حدیث عائشہ کو کتاب الشفعہ میں ذکر کرکے دروازے کے اعتبار سے قریب والے کو دور والے پرمقدم قرار دیا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پڑوسی جس کا گھر صاحب جائیداد سے متصل ہے وہ دوسرے پڑوسی سے مقدم ہوگا، یعنی اسے شفعے کا زیادہ حق ہوگا۔
(فتح الباري: 554/4) (2)
ان حضرات کا طریقۂ واردات یہ ہے کہ احادیث کی شروح سے اعتراض لےلیتے ہیں اور اس کے جواب کو نظر انداز کرجاتے ہیں، حالانکہ شارحین نے اعتراض اس لیے ذکر کیا ہوتا ہے کہ اس کا معقول جواب دیا جائے۔
ان حضرات نے"حدیث افک" پر جو اعتراضات کیے ہیں وہاں بھی یہی اسلوب اختیار کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ انھیں اپنے اعمال وعقائد کی اصلاح کرنے کی توفیق دے۔
آمين.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2259