صحيح البخاري
كِتَاب الْوُضُوءِ -- کتاب: وضو کے بیان میں
56. بَابُ مَا جَاءَ فِي غَسْلِ الْبَوْلِ:
باب: پیشاب کو دھونے کے بیان میں۔
وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَاحِب الْقَبْرِ: كَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ، وَلَمْ يَذْكُرْ سِوَى بَوْلِ النَّاسِ.
‏‏‏‏ اور یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قبر والے کے بارے میں فرمایا تھا کہ وہ اپنے پیشاب سے بچنے کی کوشش نہیں کیا کرتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی کے پیشاب کے علاوہ کسی اور کے پیشاب کا ذکر نہیں فرمایا۔
حدیث نمبر: 217
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنِي رَوْحُ بْنُ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ أَبِي مَيْمُونَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا تَبَرَّزَ لِحَاجَتِهِ أَتَيْتُهُ بِمَاءٍ فَيَغْسِلُ بِهِ".
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو اسماعیل بن ابراہیم نے خبر دی، کہا مجھے روح بن القاسم نے بتلایا، کہا مجھ سے عطاء بن ابی میمونہ نے بیان کیا، وہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رفع حاجت کے لیے باہر تشریف لے جاتے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پانی لاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے استنجاء فرماتے۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:217  
217. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ جب رفع حاجت کے لیے باہر تشریف لے جاتے تو میں آپ کے لیے پانی لے کر جایا کرتا جس سے آپ استنجا کرتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:217]
حدیث حاشیہ:

رفع حاجت میں بول وبراز سب شامل ہیں، اس طرح پیشاب کا دھونا ثابت ہوا۔
حلال جانوروں کا پیشاب اس سے مستثنیٰ ہے جس کا بیان آگے ہوگا۔
اس طرح یغسل کا لفظ بھی عام ہے کہ محل نجاست کو دھوتے تھے۔
اب خواہ وہ محل بول ہو یا محل براز۔
طہارت کی صورت دھونا ہے، اسی مناسبت سے عنوان ثابت ہوگیا۔

شارح بخاری ابن بطال نے لکھاہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نےحیوانات کے پیشاب کے متعلق اہل ظاہر کی موافقت کی ہے۔
(شرح ابن بطال: 347/1)
یہ ابن بطال کا سہو ہے کہ انھوں نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو اہل ظاہر کا ہم نوا بتلایا ہے، کیونکہ اہل ظاہر کےنزدیک بول الناس کےعلاوہ تمام حیوانات کے پیشاب طاہر ہیں، خواہ ان کا گوشت کھایاجاتا ہو یا نہ کھایا جاتا ہو۔
اس موقف کو نہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اختیار کیا ہے اور نہ اسے کسی موقع پر راجح ہی قراردیا ہے۔
ظاہریہ کی بعض جزئیات سے اتفاق کرنے سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ تمام جزئیات کو اختیار کرلیا گیا ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ خود مجتہد مطلق ہیں، کسی مجتہد کی جو جزئیات کتاب وسنت کے موافق ہوتی ہیں انھیں اختیار کرلیتے ہیں اور جو کتاب وسنت کے منافی ہوتی ہیں انھیں خاموشی کے ساتھ ترک کردیتے ہیں۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے تراجم ہی ان کی ٹھوس اورخاموش ابحاث ہیں۔
ان کی خاص شروط کے مطابق احادیث صحیحہ کی اتباع ہی ان کی دھن ہے۔
ظاہریہ میں تو ابن حزم بھی ہیں، وہ ماکول اللحم حیوانات کے پیشاب اور گوبر وغیرہ کو نجس قراردیتے ہیں۔
محلی ابن حزم کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے نزدیک ہر جانور کے بول سے اجتناب ضروری ہے بصورت دیگر تساہل برتنے پر اس کے حق میں عذاب کی وعید ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ مجتہد مطلق ہیں اور وہ دلیل کے تابع ہیں۔
ان کا مسلک کتاب وسنت ہے اور کچھ نہیں۔

عربی کا مقولہ ہے کہ جھوٹا آدمی بھی کبھی سچی بات کہہ دیتا ہے۔
اس کے پیش نظر اصلاحی صاحب کا اس سلسلے میں ایک حکیمانہ فتویٰ ہم یہاں نقل کرتے ہیں:
میں نےآٹھ سال دیہات میں رہ کر دیکھا ہے کہ سب سے حکیمانہ فتویٰ ان لوگوں کا ہے جنھوں نے کہا جن جانوروں کا گوشت ہم کھاتے ہیں ان کا پیشاب بھی پاک ہے۔
میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ان جانوروں میں آپ زندگی گزاریں تو یہ ناممکن ہے کہ کبھی آپ کے کپڑے وغیرہ پر ان کے پیشاب کا چھینٹا نہ پڑ جائے، لہذا ان کے پیشاب کو انسان کے پیشاب پر قیاس کرنے سے لوگوں کے لیے غیرمعمولی دشواری پیدا ہوجاتی ہے اور ایسا کرنا شریعت کے مزاج کے خلاف ہے۔
(تدبرحدیث: 311/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 217