سنن نسائي
كتاب المواقيت -- کتاب: اوقات نماز کے احکام و مسائل
55. بَابُ : كَيْفَ يُقْضَى الْفَائِتُ مِنَ الصَّلاَةِ
باب: فوت شدہ نماز کی قضاء کیسے کی جائے؟
حدیث نمبر: 626
أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، قال: حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ، حَدَّثَنَا حَبِيبٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ هَرِمٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قال:" أَدْلَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ عَرَّسَ، فَلَمْ يَسْتَيْقِظْ حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ أَوْ بَعْضُهَا، فَلَمْ يُصَلِّ حَتَّى ارْتَفَعَتِ الشَّمْسُ فَصَلَّى وَهِيَ صَلَاةُ الْوُسْطَى".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں چلے، پھر رات کے آخری حصہ میں سونے کے لیے پڑاؤ ڈالا، تو آپ جاگ نہیں سکے یہاں تک کہ سورج نکل آیا، یا اس کا کچھ حصہ نکل آیا، اور آپ نماز نہیں پڑھ سکے یہاں تک کہ سورج اوپر چڑھ آیا، پھر آپ نے نماز پڑھی، اور یہی «صلوٰۃ وسطی» ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 5388)، وانظر مسند احمد 1/259 (منکر) (فجر کو ’’صلاة الوسطی‘‘ کہنا منکرہے، ’’صلاة الوسطی‘‘ عصر کی صلاة ہے، اس کے راوی ”حبیب بن أبی حبیب‘‘ سے وہم ہو جایا کرتا تھا)»

وضاحت: ۱؎: لیکن صلاۃ فجر کو صلاۃ الوسطی کہنا منکر ہے، صلاۃ الوسطی عصر کی صلاۃ ہے، جب کہ وہ فجر کی صلاۃ تھی۔

قال الشيخ الألباني: منكر بزيادة وهي صلاة الوسطى
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 626  
´فوت شدہ نماز کی قضاء کیسے کی جائے؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں چلے، پھر رات کے آخری حصہ میں سونے کے لیے پڑاؤ ڈالا، تو آپ جاگ نہیں سکے یہاں تک کہ سورج نکل آیا، یا اس کا کچھ حصہ نکل آیا، اور آپ نماز نہیں پڑھ سکے یہاں تک کہ سورج اوپر چڑھ آیا، پھر آپ نے نماز پڑھی، اور یہی «صلوٰۃ وسطی» ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 626]
626 ۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ روایت ضعیف ہے، اس لیے اس میں صلاۃ وسطیٰ کی جو تفسیر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب کی گئی ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ صحیح یہ ہے کہ اس سے مراد نماز عصر ہے۔ دیکھیے: [حدیث: 473، 474]
باقی باتیں دوسری روایات سے ثابت ہیں۔
➋ ظاہر تو یہ ہے کہ اس باب کی جملہ روایات ایک ہی واقعہ سے متعلق ہیں۔ اجمال اور تفصیل کا فرق ہے، سوائے حدیث: 623 کے کہ وہ جنگ خندق کا واقعہ ہے، البتہ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک سے زائد واقعات ہوں۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 626