سنن نسائي
كتاب الإمامة -- کتاب: امامت کے احکام و مسائل
1. بَابُ : ذِكْرِ الإِمَامَةِ وَالْجَمَاعَةِ إِمَامَةِ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالْفَضْلِ
باب: اہل علم و فضل کی امامت کا بیان۔
حدیث نمبر: 778
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَهَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ حُسَيْنِ بْنِ عَلَيٍّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قال: لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قالتِ الْأَنْصَارُ: مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ فَأَتَاهُمْ عُمَرُ، فَقَالَ: أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ" أَمَرَ أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ فَأَيُّكُمْ تَطِيبُ نَفْسُهُ أَنْ يَتَقَدَّمَ أَبَا بَكْرٍ قَالُوا نَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ نَتَقَدَّمَ أَبَا بَكْرٍ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو انصار کہنے لگے: ایک امیر ہم (انصار) میں سے ہو گا اور ایک امیر تم (مہاجرین) میں سے، تو عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے، اور کہا: کیا تم لوگوں کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو لوگوں کو نماز پڑھانے کا حکم دیا ہے ۱؎، تو اب بتاؤ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے آگے بڑھنے پر تم میں سے کس کا جی خوش ہو گا؟ ۲؎ تو لوگوں نے کہا: ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ سے آگے بڑھنے پر اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ۳؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 10587)، مسند احمد 1/396، 405 (حسن الإسناد)»

وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ امامت کے لیے صاحب علم وفضل کو آگے بڑھانا چاہیئے۔ ۲؎: اس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سمجھا کہ امامت صغریٰ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھانا اس بات کا اشارہ تھا کہ وہی امامت کبریٰ کے بھی اہل ہیں، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زیادہ علم والا، زیادہ قرآن پڑھنے والے پر مقدم ہو گا، اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے متعلق «اقرأکم أبی» فرمایا ہے، اس کے باوجود آپ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امامت کے لیے مقدم کیا۔ ۳؎: اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر انصار رضی اللہ عنہم بھی راضی ہو گئے۔

قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 778  
´اہل علم و فضل کی امامت کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو انصار کہنے لگے: ایک امیر ہم (انصار) میں سے ہو گا اور ایک امیر تم (مہاجرین) میں سے، تو عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے، اور کہا: کیا تم لوگوں کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو لوگوں کو نماز پڑھانے کا حکم دیا ہے ۱؎، تو اب بتاؤ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے آگے بڑھنے پر تم میں سے کس کا جی خوش ہو گا؟ ۲؎ تو لوگوں نے کہا: ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ سے آگے بڑھنے پر اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ۳؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 778]
778 ۔ اردو حاشیہ:
➊ انصار یہ سمجھتے تھے کہ چونکہ مدینہ منورہ اصلاً ہماری بستی ہے، لہٰذا امیر (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشین) ہم میں سے ہونا چاہیے لیکن یہ صرف شہر مدینہ کے امیر کے انتخاب کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ پوری مملکت اسلامیہ کے امیر کا مسئلہ تھا۔ ظاہر ہے کہ مملکت اسلامیہ کا امیر ایسا شخص ہونا چاہیے تھا جسے وسیع تر پیمانے پر سیاسی حمایت حاصل ہو اور اس کا تعلق ایسے قبیلے سے ہو جسے شہرت، سیادت اور عزت کم از کم عربوں کی حد تک ضرور حاصل ہو کیونکہ اس وقت اسلام عربوں ہی تک محدود تھا اور اس دور میں قریش کے علاوہ کوئی قبیلہ ان شرائط پر پورا نہ اترتا تھا۔ بیت اللہ کے متولی ہونے کی وجہ سے انہیں پورے عرب میں بے پناہ عزت و احترام حاصل تھا۔ ان کی سیادت کو سب عرب مانتے تھے اور وہ پورے عرب میں مشہور و معروف تھے۔ یہ چیزیں انصار کو حاصل نہ تھیں، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی یا رہنمائی فرما دی تھی: «الأئمةُ من قريشٍ» خلفاء قریش سے ہوں گے۔ [مسند أحمد: 129/3، و مسند أبي داود الطیالسي، حدیث: 2247]
اور قریش میں سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جو مقام و مرتبہ حاصل تھا، وہ کسی اور کو نہ تھا۔ سب سے پہلے اسلام لانے والے، نبوت سے قبل بھی آپ کے دوست، تادم وفات آپ کے ساتھی اور مشیر، آپ کے سسر، ہجرت میں آپ کے رفیق، عشرۂ مبشرہ میں سے اولین شخصیت، تقویٰ و سخاوت اور دور اندیشی میں تمام صحابہ سے فائق اور سب کے نزدیک محترم و مکرم، انھی وجوہات کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری کے دنوں میں انہیں امامت کے لیے مقرر فرمایا۔ [صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 678، و صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 418]
یہ واضح اشارہ تھا کہ آئندہ امیر اور خلیفہ بھی ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) ہی ہوں گے کیونکہ یہ تو نہیں ہو سکتاکہ امیر کوئی اور ہو اور جماعت کوئی اور کرائے۔ انصار اس طرف توجہ نہ کر سکے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے توجہ دلانے سے انصار کے ذہن میں یہ نکتہ آگیا اور مسئلہ حل ہو گیا۔
➋ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امامت کے لیے مقرر فرمانے سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل علم و فضل ہی کو امامت جیسے جلیل القدر منصب پر فائز کیا جانا چاہیے، نیز أعلم کو اقرا پر ترجیح دینا جائز ہے جب دیگر مقاصد مدنظر ہوں کیونکہ أقرا تو صحیح حدیث کی رو سے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ تھے۔ [جامع الترمذي، المناقب، حدیث: 3790، 3791، و سنن ابن ماجه، السنة، حدیث: 154]
جبکہ مطلقاً أعلم کو أقرا پر مقدم کرنے کا استدلال درست نہیں کیونکہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تقدیم کا مقصد صرف نماز کی امامت نہ تھا بلکہ یہ امامت کبریٰ، یعنی ان کی خلافت کی طرف بھی اشارہ تھا۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 778