صحيح البخاري
كِتَاب الْإِجَارَةِ -- کتاب: اجرت کے مسائل کا بیان
16. بَابُ مَا يُعْطَى فِي الرُّقْيَةِ عَلَى أَحْيَاءِ الْعَرَبِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ:
باب: سورۃ فاتحہ پڑھ کر عربوں پر پھونکنا اور اس پر اجرت لے لینا۔
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَحَقُّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا كِتَابُ اللَّهِ، وَقَالَ الشَّعْبِيُّ: لَا يَشْتَرِطُ الْمُعَلِّمُ إِلَّا أَنْ يُعْطَى شَيْئًا فَلْيَقْبَلْهُ، وَقَالَ الْحَكَمُ: لَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا كَرِهَ أَجْرَ الْمُعَلِّمِ، وَأَعْطَى الْحَسَنُ دَرَاهِمَ عَشَرَةً، وَلَمْ يَرَ ابْنُ سِيرِينَ بِأَجْرِ الْقَسَّامِ بَأْسًا، وَقَالَ: كَانَ يُقَالُ السُّحْتُ: الرِّشْوَةُ فِي الْحُكْمِ، وَكَانُوا يُعْطَوْنَ عَلَى الْخَرْصِ.
‏‏‏‏ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا کہ کتاب اللہ سب سے زیادہ اس کی مستحق ہے کہ تم اس پر اجرت حاصل کرو۔ اور شعبی رحمہ اللہ نے کہا کہ قرآن پڑھانے والا پہلے سے طے نہ کرے۔ البتہ جو کچھ اسے بن مانگے دیا جائے لے لینا چاہئیے۔ اور حکم رحمہ اللہ نے کہا کہ میں نے کسی شخص سے یہ نہیں سنا کہ معلم کی اجرت کو اس نے ناپسند کیا ہو اور حسن رحمہ اللہ نے (اپنے معلم کو) دس درہم اجرت کے دیئے۔ اور ابن سیرین رحمہ اللہ نے قسام (بیت المال کا ملازم جو تقسیم پر مقرر ہو) کی اجرت کو برا نہیں سمجھا۔ اور وہ کہتے تھے کہ (قرآن کی آیت میں) «سحت» فیصلہ میں رشوت لینے کے معنی میں ہے اور لوگ (اندازہ لگانے والوں کو) انداز لگانے کی اجرت دیتے تھے۔