صحيح البخاري
كِتَاب الْإِجَارَةِ -- کتاب: اجرت کے مسائل کا بیان
19. بَابُ مَنْ كَلَّمَ مَوَالِيَ الْعَبْدِ أَنْ يُخَفِّفُوا عَنْهُ مِنْ خَرَاجِهِ:
باب: اس کے متعلق جس نے کسی غلام کے مالکوں سے غلام کے اوپر مقررہ ٹیکس میں کمی کے لیے سفارش کی۔
حدیث نمبر: 2281
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُلَامًا حَجَّامًا فَحَجَمَهُ، وَأَمَرَ لَهُ بِصَاعٍ أَوْ صَاعَيْنِ، أَوْ مُدٍّ أَوْ مُدَّيْنِ، وَكَلَّمَ فِيهِ، فَخُفِّفَ مِنْ ضَرِيبَتِهِ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے بیان کیا، اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پچھنا لگانے والے غلام (ابوطیبہ) کو بلایا، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پچھنا لگایا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک یا دو صاع، یا ایک یا دو مد (راوی حدیث شعبہ کو شک تھا) اجرت دینے کے لیے حکم فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کے مالکوں سے بھی) ان کے بارے میں سفارش فرمائی تو ان کا خراج کم کر دیا گیا۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 429  
´ پچھنے لگانے کی اُجرت`
«. . . ابو طيبة، فامر له رسول الله صلى الله عليه وسلم بصاع من تمر، وامر اهله ان يخففوا عنه من خراجه . . .»
. . . ابوطیبہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پچھنے لگائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اسے (مزدوری میں) کھجوروں کا ایک صاع دیا جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مالکوں کو حکم دیا کہ وہ اس پر خراج (مقرر کردہ رقم) میں کمی کر دیں . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 429]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2102، 2110، من حديث مالك، ومسلم 1577، من حديث حميد الطّويل به وصرح حميد بالسماع عند مسلم 64/1577]

تفقه:
➊ بیماری کے علاج کے لئے آلات کے ذریعے سے جسم کے کسی حصے سے خون نکالنے کے عمل کو پچھنے لگانا یا سینگی لگانا کہتے ہیں۔
➋ پچھنے لگانے کی اجرت جائز ہے اور جن احادیث میں اسے خبیث کہا گیا ہے یا پچھنے لگانے سے منع کیا گیا ہے وہ کراہیت تنزیہی پر محمول ہیں یا پھر منسوخ ہیں۔
➌ اس سے ہمارے دور میں نائیوں کی مروجہ حجامت مراد نہیں ہے جس میں وہ سر وغیرہ کے بال کاٹتے ہیں۔ اگر مروجہ حجامت میں شریعت کے خلاف کوئی بات نہ ہو تو اس کی اجرت بھی جائز اور حلال ہے۔ یاد رہے کہ داڑھی منڈوانا یا ایک مشت سے کم کاٹنا حرام ہے لہٰذا ایسی حرکت کرنے والے نائیوں (حجاموں) کی آمدنی حرام ہے۔
➍ اگر اسلامی حکومت ہو تو غلامی جائز ہے۔ میدان جہاد میں قیدی کافروں کو غلام بنا کر بعد میں بیچا جا سکتا ہے۔
➎ اچھے کام میں سفارش کرنا مسنون ہے۔
➏ بیماری کا علاج کرانا مسنون ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 152   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1837  
´محرم پچھنا لگوائے تو کیسا ہے؟`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک درد کی وجہ سے جو آپ کو تھا اپنے قدم کی پشت پر پچھنا لگوایا، آپ احرام باندھے ہوئے تھے ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے احمد کو کہتے سنا کہ ابن ابی عروبہ نے اسے مرسلاً روایت کیا ہے یعنی قتادہ سے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1837]
1837. اردو حاشیہ:
➊ سینگی لگوانا اور فصد کھلوانا اس دور کا معروف طریقہ علاج تھا۔ اور مذکورہ بالا احادیث میں دو مختلف واقعات کا بیان آیا ہے۔
➋ اب بھی بوقت ضرورت اس سے فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔اورظاہر ہے کہ اس عمل میں بالوں کی جگہ سے بال کاٹے جاتے ہیں۔جلد پر چیرالگایا جاتا ہے۔پس اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔تاہم کئی ایک فقہاء بال کاٹنے کی بنا پر فدیہ کے قائل ہیں۔نیز دانت نکلوانے یا کسی عمل جراحی کی صورت میں کوئی فدیہ لازم نہیں آتا۔
➌ بیماری میں علاج کرانا سنت رسول ﷺ ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1837   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2281  
2281. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نےکہا کہ نبی ﷺ سینگی لگانے والے غلام کو بلایا تو اس نے آپ کو پچھنےلگائے اور آپ نے اس کے لیے ایک صاع یا دوصاع یا ایک یا دو غلہ دینے کا حکم دیا اور اس کے معاملے کے متعلق گفتگوفرمائی تو اس کے مقررہ یومیہ ٹیکس میں کمی کردی گئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2281]
حدیث حاشیہ:
پچھلی حدیث میں پچھنا لگانے والے غلام کی کنیت ابوطیبہ ؓ مذکور ہے۔
ان کا نام نافع بتلایا گیا ہے۔
حافظ ؒنے اسی کو صحیح کہا ہے۔
ابن حذاءنے کہا کہ ابوطیبہ نے 134سال کی عمر پائی تھی۔
حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ غلام یا لونڈی کے اوپر مقررہ ٹیکس میں کمی کرانے کی سفارش کرنا درست ہے۔
اللہ کا شکر ہے کہ اب اسلام کی برکت سے غلامی کا یہ بدترین دور تقریباً دنیا سے ختم ہو چکا ہے۔
مگر اب غلامی کے دوسرے طریقے ایجاد ہو گئے ہیں جو اور بھی بدتر ہیں۔
اب قوموں کو غلام بنایا جاتا ہے جن کے لیے اقلیت اور اکثریت کی اصطلاحات مروج ہو گئی ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2281   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2281  
2281. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نےکہا کہ نبی ﷺ سینگی لگانے والے غلام کو بلایا تو اس نے آپ کو پچھنےلگائے اور آپ نے اس کے لیے ایک صاع یا دوصاع یا ایک یا دو غلہ دینے کا حکم دیا اور اس کے معاملے کے متعلق گفتگوفرمائی تو اس کے مقررہ یومیہ ٹیکس میں کمی کردی گئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2281]
حدیث حاشیہ:

سینگی لگانے والے غلام کی کنیت ابو طیبہ اور نام نافع تھا۔
اس روایت میں راوی کو ترددہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے کتنا غلہ دیا جبکہ قبل ازیں روایت گزرچکی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے کھجور کا ایک صاع عنایت فرمایا تھا۔
(صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2102)
جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو حکم دیا تھا کہ وہ انھیں ایک صاع دیں۔
(جامع الترمذي، البیوع، حدیث: 1278، و سنن ابن ماجة، التجارات، حدیث: 2163)
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے دریافت کیا کہ تیرا یومیہ ٹیکس کس قدر ہے؟ تو اس نے کہا:
دوصاع، پھر آپ کی سفارش سے اس کے مالکان نے ایک صاع معاف کردیا۔
(المصنف لابن أبي شیبة: 267/6)
اس کے مالکان بنو حارثہ قبیلے کے لوگ تھے،ان میں سے حضرت محّیصہ بن مسعود ؓ بھی ہیں۔
بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بنو بیاضہ کے غلام تھے، حالانکہ یہ وہم ہے کیونکہ ان کا غلام ابو ہندتھا۔
(فتح الباري: 581/4)
اس روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے اس غلام کے متعلق سفارش فرمائی تھی۔
(2)
اگر غلام کا محصول اس قدر زیادہ ہوکہ اسے ادا کرنے کی طاقت نہ ہوتو حاکم وقت اس میں تخفیف لازم کرسکتا ہے۔
اللہ کا شکر ہے کہ اب اسلام کی برکت سے غلامی کا دور ختم ہوچکاہے لیکن اب افراد کو غلام بنانے کے بجائے قوموں کو غلام بنایا جاتا ہے جس کے لیے نئے نئے طریقے ایجاد ہوچکے ہیں۔
أعاذناالله منه.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2281