سنن نسائي
كتاب التطبيق -- کتاب: تطبیق کے احکام و مسائل
51. بَابُ : صِفَةِ السُّجُودِ
باب: سجدہ کرنے کا طریقہ۔
حدیث نمبر: 1107
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا بَكْرٌ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكٍ ابْنِ بُحَيْنَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ إِذَا صَلَّى فَرَّجَ بَيْنَ يَدَيْهِ حَتَّى يَبْدُوَ بَيَاضُ إِبْطَيْهِ".
عبداللہ بن مالک ابن بحینہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کے بیچ کشادگی رکھتے، یہاں تک کہ آپ کے بغل کی سفیدی ظاہر ہو جاتی۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 27 (390)، الأذان 130 (807)، المناقب 23 (3564)، صحیح مسلم/الصلاة 46 (495)، (تحفة الأشراف: 9157)، مسند احمد 5/345 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 235  
´نماز کی صفت کا بیان`
«. . . وعن ابن بحينة أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: كان إذا صلى وسجد فرج بين يديه حتى يبدو بياض إبطيه. متفق عليه. . . .»
. . . سیدنا ابن بحینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز ادا فرماتے اور سجدہ کرتے تو اس حالت میں اپنے دونوں بازو اپنے پہلووں سے الگ رکھتے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگتی تھی۔ (بخاری و مسلم) . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب صفة الصلاة: 235]

لغوی تشریح:
«فَرَّجَ» تفریج (باب تفعیل) سے ماضی کا صیغہ ہے۔ جس کے معنی ہیں: دونوں پلوؤں کے درمیان دوری، کشادگی اور فراخی پیدا کرنا ہے۔

فائدہ:
اس حدیث سے یہ مسئلہ واضح ہوتا ہے کہ سجدہ کرتے وقت اپنے بازوؤں کو اپنی رانوں سے اتنا الگ رکھے کہ بغلوں کا اندرون بھی نمایاں ہو جائے۔ اس حدیث کی بنا پر امام طبری رحمہ اللہ وغیرہ نے کہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلیں جسم اطہر کے دوسرے اعضاء کی طرح سفید تھیں، سیاہ نہ تھیں۔ یہ آپ کی دیگر خصوصیات و امتیازات کی طرح ایک خصوصیت ہے۔ اس خصوصیت کی تصریح طبری نے کتاب الاحکام کے باب الاستسقاء میں کی ہے کہ آپ کی بغلیں دوسروں کی طرح سیاہ نہ تھیں بلکہ سفید تھیں۔

راویٔ حدیث: (سیدنا ابن بحینہ رضی اللہ عنہ) ان کا پورا نام عبداللہ بن مالک بن قشب (قاف کے نیچے کسرہ اور شین ساکن) أزدی ہے۔ اور بُحینہ (تصغیر کے ساتھ) ان کی والدہ کا نام ہے۔ والدہ کے نام سے مشہور ہوئے ہیں ورنہ والد کا نام مالک ہے۔ قدیم الاسلام ہیں۔ بڑے زاہد، شب زندہ دار اور صائم النہار تھے۔ دنیا سے بڑے بے رغبت تھے۔ مدینے سے تیس میل کے فاصلے پر واقع وادیٔ ریم میں 54 اور 58 ہجری کے درمیان وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 235   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1107  
´سجدہ کرنے کا طریقہ۔`
عبداللہ بن مالک ابن بحینہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کے بیچ کشادگی رکھتے، یہاں تک کہ آپ کے بغل کی سفیدی ظاہر ہو جاتی۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1107]
1107۔ اردو حاشیہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم بغلوں کے بال صاف رکھتے تھے، اس لیے سفید چمڑا نظر آتا تھا یا بالوں کے اردگرد کی سفیدی مراد ہو گی۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1107