سنن نسائي
كتاب السهو -- کتاب: نماز میں سہو کے احکام و مسائل
98. بَابُ : تَرْكِ مَسْحِ الْجَبْهَةِ بَعْدَ التَّسْلِيمِ
باب: سلام پھیرنے کے بعد پیشانی نہ پوچھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1357
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَكْرٌ وَهُوَ ابْنُ مُضَرَ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُجَاوِرُ فِي الْعَشْرِ الَّذِي فِي وَسَطِ الشَّهْرِ , فَإِذَا كَانَ مِنْ حِينِ يَمْضِي عِشْرُونَ لَيْلَةً وَيَسْتَقْبِلُ إِحْدَى وَعِشْرِينَ , يَرْجِعُ إِلَى مَسْكَنِهِ وَيَرْجِعُ مَنْ كَانَ يُجَاوِرُ مَعَهُ، ثُمَّ إِنَّهُ أَقَامَ فِي شَهْرٍ جَاوَرَ فِيهِ تِلْكَ اللَّيْلَةَ الَّتِي كَانَ يَرْجِعُ فِيهَا , فَخَطَبَ النَّاسَ فَأَمَرَهُمْ بِمَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ قَالَ:" إِنِّي كُنْتُ أُجَاوِرُ هَذِهِ الْعَشْرَ، ثُمَّ بَدَا لِي أَنْ أُجَاوِرَ هَذِهِ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ , فَمَنْ كَانَ اعْتَكَفَ مَعِي فَلْيَثْبُتْ فِي مُعْتَكَفِهِ , وَقَدْ رَأَيْتُ هَذِهِ اللَّيْلَةَ فَأُنْسِيتُهَا فَالْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ فِي كُلِّ وَتْرٍ , وَقَدْ رَأَيْتُنِي أَسْجُدُ فِي مَاءٍ وَطِينٍ" قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: مُطِرْنَا لَيْلَةَ إِحْدَى وَعِشْرِينَ , فَوَكَفَ الْمَسْجِدُ فِي مُصَلَّى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ وَقَدِ انْصَرَفَ مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ وَوَجْهُهُ مُبْتَلٌّ طِينًا وَمَاءً.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (رمضان کے) مہینہ کے بیچ کے دس دنوں میں اعتکاف کرتے تھے، جب بیسویں رات گزر جاتی اور اکیسویں کا استقبال کرتے تو آپ اپنے گھر واپس آ جاتے، اور وہ لوگ بھی واپس آ جاتے جو آپ کے ساتھ اعتکاف کرتے تھے، پھر ایک مہینہ ایسا ہوا کہ آپ جس رات گھر واپس آ جاتے تھے اعتکاف ہی میں ٹھہرے رہے، لوگوں کو خطبہ دیا، اور انہیں حکم دیا جو اللہ نے چاہا، پھر فرمایا: میں اس عشرہ میں اعتکاف کیا کرتا تھا پھر میرے جی میں آیا کہ میں ان آخری دس دنوں میں اعتکاف کروں، تو جو شخص میرے ساتھ اعتکاف میں ہے تو وہ اپنے اعتکاف کی جگہ میں ٹھہرا رہے، میں نے اس رات (لیلۃ القدر) کو دیکھا، پھر وہ مجھے بھلا دی گئی، تم اسے آخری دس دنوں کی طاق راتوں میں تلاش کرو، اور میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں، ابو سعید خدری کہتے ہیں: اکیسویں رات کو بارش ہوئی تو مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی جگہ پر ٹپکنے لگی، چنانچہ میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ صبح کی نماز سے فارغ ہو کر لوٹ رہے ہیں، اور آپ کا چہرہ مٹی اور پانی سے تر تھا۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1096 (ہذا الحدیث مطول، والحدیث الذي تقدم مختصر) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1357  
´سلام پھیرنے کے بعد پیشانی نہ پوچھنے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (رمضان کے) مہینہ کے بیچ کے دس دنوں میں اعتکاف کرتے تھے، جب بیسویں رات گزر جاتی اور اکیسویں کا استقبال کرتے تو آپ اپنے گھر واپس آ جاتے، اور وہ لوگ بھی واپس آ جاتے جو آپ کے ساتھ اعتکاف کرتے تھے، پھر ایک مہینہ ایسا ہوا کہ آپ جس رات گھر واپس آ جاتے تھے اعتکاف ہی میں ٹھہرے رہے، لوگوں کو خطبہ دیا، اور انہیں حکم دیا جو اللہ نے چاہا، پھر فرمایا: میں اس عشرہ میں اعتکاف کیا کرتا تھا پھر میرے جی میں آیا کہ میں ان آخری دس دنوں میں اعتکاف کروں، تو جو شخص میرے ساتھ اعتکاف میں ہے تو وہ اپنے اعتکاف کی جگہ میں ٹھہرا رہے، میں نے اس رات (لیلۃ القدر) کو دیکھا، پھر وہ مجھے بھلا دی گئی، تم اسے آخری دس دنوں کی طاق راتوں میں تلاش کرو، اور میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں، ابو سعید خدری کہتے ہیں: اکیسویں رات کو بارش ہوئی تو مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی جگہ پر ٹپکنے لگی، چنانچہ میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ صبح کی نماز سے فارغ ہو کر لوٹ رہے ہیں، اور آپ کا چہرہ مٹی اور پانی سے تر تھا۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1357]
1357۔ اردو حاشیہ:
➊ خواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو لیلۃ القدر معین رات میں بتلائی گئی تھی مگر دوسری روایات کے مطابق بعض لوگوں کے جھگڑے کی وجہ سے آپ کے ذہن سے نکل گئی۔ آپ کو صرف نشانی یاد رہ گئی کہ میں کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں، لیکن یہ یاد رہے کہ یہ نشانی صرف اس سال کے لیے تھی، نہ کہ ہمیشہ کے لیے کیونکہ آپ نے بعض دوسرے مواقع پر اور نشانیاں بھی بتائی ہیں، نیز یہ رات ہر سال بدلتی رہتی ہے مگر آخری عشرے کی طاق راتوں ہی میں۔
➋ نماز سے فارغ ہونے کے بعد ماتھا وغیرہ پونچھ لینا چاہیے تاکہ سجدے میں اگر کوئی تنکا یا مٹی لگی ہو تو صاف ہو جائے۔ اس طرح ریاکاری کا خطرہ نہیں رہے گا۔ مندرجہ بالا روایات میں تو ابھی آپ نے سلام پھیرا ہی تھا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1357   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1766  
´لیلۃ القدر (شب قدر) کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے شب قدر خواب میں دکھائی گئی لیکن پھر مجھ سے بھلا دی گئی، لہٰذا تم اسے رمضان کے آخری عشرہ (دہے) کی طاق راتوں میں ڈھونڈھو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1766]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
شب قدر سال کی سب سے افضل رات ہے اس کی ایک رات کی عبا دت ہزار مہینے کی عبادت سے زیادہ فضیلت کی حامل ہے (القدر: 97/3)

(2)
شب قدر کی فضیلت حاصل کرنے کے لئے اعتکاف کرنا سنت ہے البتہ جو شخص اعتکاف نہ کر سکے اسے بھی راتیں عبادت میں گزارنے کی کو شش کرنی چاہیے
(3)
  شب قدر بھلائے جا نے کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو یہ با ت یا د نہ رہی کہ اس سال کون سی رات شب قدر ہے ہر سال اسی رات میں ہونا ضروری نہیں۔

(4)
شب قدر آخری عشرے کی طا ق راتو ں میں سے کوئی ایک رات ہوتی ہے اس لئے جو شخص دس راتیں عبادت نہ کر سکے اسے یہ پا نچ راتیں ضرور عبادت اور تلاوت و ذکر میں گزارنی چاہیں تاکہ شب قدر کی عظیم نعمت سے محروم نہ رہے
(5)
اگرچہ علمائے کرام نے شب قدر کی بعض علامتیں بیان کی ہیں لیکن ثواب کا دارومدار اس چیز پر نہیں کہ عبادت کرنے والے کو یہ رات معلوم ہوئی یا نہیںں اس لئے اس پریشانی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ ہمیں فلاں فلاں علامت کا احسا س نہیں ہوا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1766