سنن نسائي
كتاب الجمعة -- کتاب: جمعہ کے فضائل و مسائل
25. بَابُ : حَضِّ الإِمَامِ فِي خُطْبَتِهِ عَلَى الْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ
باب: امام کا اپنے خطبہ میں جمعہ کے دن کے غسل کی ترغیب دلانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1408
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ وَهُوَ قَائِمٌ عَلَى الْمِنْبَرِ:" مَنْ جَاءَ مِنْكُمُ الْجُمُعَةَ فَلْيَغْتَسِلْ" , قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: مَا أَعْلَمُ أَحَدًا تَابَعَ اللَّيْثَ عَلَى هَذَا الْإِسْنَادِ، غَيْرَ ابْنِ جُرَيْجٍ وَأَصْحَابُ الزُّهْرِيِّ , يَقُولُونَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ بَدَلَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے کھڑے فرمایا: جو شخص تم میں سے جمعہ کے لیے آئے تو چاہیئے کہ وہ غسل کر لے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: میں کسی کو نہیں جانتا جس نے اس سند پر لیث کی متابعت کی ہو سوائے ابن جریج کے، اور زہری کے دیگر تلامذہ «عن عبداللہ بن عبداللہ بن عمر» کے بدلے «سالم بن عبداللہ عن أبيه» کہتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجمعة (844)، سنن الترمذی/الصلاة 238 (493)، (تحفة الأشراف: 7270)، مسند احمد 2/120، 149 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 212  
´جمعہ کی نماز کے لئے غسل کرنا مستحب ہے`
«. . . وبه: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا جاء احدكم الجمعة فليغتسل. . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص جمعہ (کی نماز) کے لئے آئے تو وہ غسل کرے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 212]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 877، من حديث مالك و مسلم 844، من حديث نافع به]
تفقہ:
➊ اس حدیث اور دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کے دن غسل کرنا ضروری (واجب) ہے لیکن بعض احادیث سے ثابت ہے کہ یہ غسل ضروری نہیں بلکہ سنت و مستحب ہے۔
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «من توضأ فبھا ونعمت ومن اغتسل فذلك أفضل۔» جس نے وضو کیا تو اچھا کیا اور جس نے غسل کیا تو یہ افضل ہے۔ [صحيح ابن خزيمه: 1757، وسنده حسن، سنن ابي داؤد: 354، والحسن البصري صرح بالسماع عند الطّوسي فى مختصر الاحكام 3/10 ح467/334 وسنده حسن]
◈ حسن بصری کی سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کتاب سے روایت کی وجہ سے حسن ہوتی ہے چاہے سماع کی تصریح ہو یا نہ ہو اور اس روایت میں تو انہوں نے سماع کی تصریح کردی ہے۔ «والحمدلله»
➋ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: غسل جنابت کی طرح جمعہ کے دن غسل کرنا بھی ہر نوجوان پر واجب ہے۔ [الموطأ 1/101 ح224، وسنده صحيح]
◈ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جمعہ کے دن غسل سنت میں سے ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 2/96 ح5020 وسنده صحيح، البزار فى كشف الاستار: 627]
◈ امام شعبی نے فرمایا: جو شخص جمعہ کے دن وضو کرے تو اچھا ہے اور جو غسل کرے تو افضل ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 2/96، 97 ح5023 وسنده صحيح]
➌ مجاہد تابعی نے فرمایا: جمعہ کے دن جو شخص طلوع فجر کے بعد غسل کرے تو یہ اس کے لئے غسل جمعہ کی طرف سے کافی ہے۔ [ابن ابي شيبه 2/99 ح5041 وسنده صحيح]
➍ نظافت کی ترغیب اور اجتماعات میں شرکت کے وقت نظافت کا خاص اہتمام کرنا چاہئے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 204   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1408  
´امام کا اپنے خطبہ میں جمعہ کے دن کے غسل کی ترغیب دلانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے کھڑے فرمایا: جو شخص تم میں سے جمعہ کے لیے آئے تو چاہیئے کہ وہ غسل کر لے۔‏‏‏‏ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: میں کسی کو نہیں جانتا جس نے اس سند پر لیث کی متابعت کی ہو سوائے ابن جریج کے، اور زہری کے دیگر تلامذہ «عن عبداللہ بن عبداللہ بن عمر» کے بدلے «سالم بن عبداللہ عن أبيه» کہتے ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1408]
1408۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ روایت امام زہری سے بیان کرنے والے بہت سے راوی ہیں، جیسے ابراہیم بن نشیط، محمد بن ولید زبیدی، سفیان بن عینیہ اور ابن جریج۔ یہ سب امام زہری کا استاد حضرت سالم بن عبداللہ بن عمر بتاتے ہیں۔ صرف حضرت لیث اور ابن جریج نے ان کا استاد عبداللہ بن عبداللہ بن عمر بتایا ہے۔ دیگر شاگردان کی طرح ابن جریج امام زہری کا استاد سالم بھی بتاتے ہیں۔ اس طرح وہ جمہور تلامذہ کی موافقت بھی کرتے ہیں۔ غرضیکہ مذکورہ کلام سے امام نسائی رحمہ اللہ امام لیث کی، جن پر ابن جریج نے بھی ان کی موافقت کی ہے، روایت کی تضعیف نہیں فرما رہے، بلکہ ان کا مقصد صرف ذکر اختلاف ہے کیونکہ امام لیث رحمہ اللہ ثقہ اور ثبت (انتہائی قابل اعتماد) ہیں۔ گویا یہ اختلاف ثقہ راوی کی زیادتی کے قبیل سے ہے جو کہ محدثین کے نزدیک سبب ضعف میں سے نہیں، اس سے معلوم ہوا کہ یہ روایت میں امام زہری کے دو شیخ ہیں، سالم اور عبداللہ بن عبداللہ۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں دونوں شیوخ کے واسطے سے روایت نقل کی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: [ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: 242/16] الحاصل: یہاں کثرت رواۃ کی بنا پر ترجیح نہیں بلکہ تطبیق ہی درست ہے۔ واللہ أعلم۔
➋ جمعے کے دن غسل کی بحث کے لیے دیکھیے، حدیث: 1376، 1377 اور اسی کتاب کا ابتدائیہ۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1408   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 492  
´جمعہ کے دن کے غسل کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جو جمعہ کی نماز کے لیے آئے اسے چاہیئے کہ (پہلے) غسل کر لے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجمعة/حدیث: 492]
اردو حاشہ:
1؎:
اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء نے جمعہ کے دن کے غسل کو واجب قرار دیا ہے،
اور جو وجوب کے قائل نہیں ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہاں امر تاکید کے لیے ہے اس سے مراد وجوب اختیاری (استحباب) ہے جیسے آدمی اپنے ساتھی سے کہے تیرا حق مجھ پر واجب ہے یعنی مؤکد ہے،
نہ کہ ایسا وجوب جس کے ترک پر سزا اورعقوبت ہو۔
(اس تاویل کی وجہ حدیث رقم 497 ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 492