سنن نسائي
كتاب الجمعة -- کتاب: جمعہ کے فضائل و مسائل
35. بَابُ : الْقِرَاءَةِ فِي الْخُطْبَةِ الثَّانِيَةِ وَالذِّكْرِ فِيهَا
باب: دوسرے خطبے میں قرأت اور ذکر الٰہی کا بیان۔
حدیث نمبر: 1419
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قال:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ قَائِمًا، ثُمَّ يَجْلِسُ، ثُمَّ يَقُومُ وَيَقْرَأُ آيَاتٍ وَيَذْكُرُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، وَكَانَتْ خُطْبَتُهُ قَصْدًا وَصَلَاتُهُ قَصْدًا".
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ دیتے تھے، پھر آپ بیچ میں بیٹھتے، پھر کھڑے ہوتے، اور کچھ آیتیں پڑھتے، اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ۱؎ اور آپ کا خطبہ درمیانی ہوتا تھا، اور نماز بھی درمیانی ہوتی تھی۔

تخریج الحدیث: «وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة 229 (1101)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 85 (1106)، (تحفة الأشراف: 2163)، مسند احمد 5/86، 88، 91، 93، 98، 102، 106، 107ں ویأتی عند المؤلف فی العیدین 26 (برقم: 1585) (حسن)»

وضاحت: ۱؎: صحیح مسلم میں جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ ہی کی ایک روایت میں یہ صراحت ہے کہ آپ جمعہ میں دو خطبے دیتے تھے، اور دونوں میں تلاوت قرآن اور وعظ و تذکیر کیا کرتے تھے، اس لیے وعظ و تذکیر کے لیے صرف پہلے خطبے کو خاص کر لینا خلاف سنت ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1419  
´دوسرے خطبے میں قرأت اور ذکر الٰہی کا بیان۔`
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ دیتے تھے، پھر آپ بیچ میں بیٹھتے، پھر کھڑے ہوتے، اور کچھ آیتیں پڑھتے، اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ۱؎ اور آپ کا خطبہ درمیانی ہوتا تھا، اور نماز بھی درمیانی ہوتی تھی۔ [سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1419]
1419۔ اردو حاشیہ: دونوں (نماز اور خطبے) کے درمیانے ہونے سے یہ لازم نہیں آتاکہ دونوں برابر ہوتے تھے بلکہ نماز، نمازوں کے لحاظ سے درمیانی ہوتی اور خطبہ، خطبوں کے لحاظ سے درمیانہ ہوتا کیونکہ یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1419   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1093  
´کھڑے ہو کر خطبہ دینے کا بیان۔`
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (جمعہ کے دن) کھڑے ہو کر خطبہ دیتے تھے، پھر (تھوڑی دیر) بیٹھ جاتے، پھر کھڑے ہو کر خطبہ دیتے، لہٰذا جو تم سے یہ بیان کرے کہ آپ بیٹھ کر خطبہ دیتے تھے تو وہ غلط گو ہے، پھر انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں آپ کے ساتھ دو ہزار سے زیادہ نمازیں پڑھ چکا ہوں ۱؎۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1093]
1093۔ اردو حاشیہ:
بغیر عذر شرعی کے بیٹھ کے خطبہ دینا جائز نہیں ہے، جو لوگ مسنون خطبوں سے پہلے منبر پر بیٹھ کر بیان یا تقریر کرتے ہیں انہیں اپنے اس خلاف سنت عمل پر غور کرنا چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1093   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1101  
´کمان پر ٹیک لگا کر خطبہ دینے کا بیان۔`
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز درمیانی ہوتی تھی اور آپ کا خطبہ بھی درمیانی ہوتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی چند آیتیں پڑھتے اور لوگوں کو نصیحت کرتے تھے۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1101]
1101۔ اردو حاشیہ:
➊ خطبہ جمعہ کو بہت زیادہ طویل کر دینا اور اس کے بالمقابل نماز کو مختصر رکھنا خلاف سنت ہے۔
➋ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خطبہ جمعہ صرف عربی زبان میں دینا ضروری نہیں بلکہ اس سے اصل مقصد تو یہ ہے کہ لوگوں کی اصلاح ہو اس لئے خطبہ اس زبان میں ہونا چاہیے جو لوگوں کی سمجھ میں آ سکے۔ اور وہ خطبہ سن کر اس سے نصیحت حاصل کر سکیں۔ اور ان کی زندگی میں انقلاب آئے۔
➌ اگر یہ پابندی لگا دی جائے کہ خطبہ جمعہ صرف عربی زبان میں ہو اور بس، تو عربی نہ جاننے والوں کی سمجھ میں اس سے کیا آئے گا؟ اور کیسے ان کی اصلاح ہو گی؟ اس طرح تو وعظ و نصیحت کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1101   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1106  
´جمعہ کے خطبہ کا بیان۔`
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ دیتے پھر بیٹھ جاتے، پھر کھڑے ہوتے اور قرآن کریم کی چند آیات تلاوت فرماتے اور اللہ کا ذکر کرتے، آپ کا خطبہ اور نماز دونوں ہی درمیانی ہوتے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1106]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
خطبے میں قرآن مجید کی آیات پڑھ کر ان کی روشنی میں مسائل بیان کرنے چاہیں۔

(2)
خطبہ بہت طویل ہو نہ بہت مختصر بلکہ درمیانہ انداز اختیار کرنا چاہیے۔

(3)
نماز بہت مختصر نہیں ہونی چاہیے۔
بعض خطباء انتہائی مختصر سورتوں کی تلاوت کرتے ہیں۔
یا لمبی سورت کی تین چار آیتیں پڑھنے پر اکتفا کرتے ہیں۔
یہ طریقہ خلاف سنت ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1106   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 374  
´نماز جمعہ کا بیان`
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن حمید کی چند آیات خطبہ جمعہ میں تلاوت فرما کر لوگوں کو نصیحت فرماتے تھے۔ (ابوداؤد) اس کی اصل مسلم میں ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 374»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الصلاة، باب الرجل يخطب علي قوس، حديث:1101، وأصله في مسلم، الجمعة، حديث:872.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خطبۂجمعہ میں قرآن مجید کی آیات پڑھنا مسنون ہیں۔
خطیب کو ان آیات کے ذریعے سے دنیا سے بے رغبتی‘ آخرت کی ترغیب اور اخلاق و کردار کی درستی کی طرف توجہ دلانی چاہیے۔
جتنی اصلاح آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ سے ہو سکتی ہے اور کسی ذریعے سے نہیں ہو سکتی۔
اس سلسلے میں موضوع احادیث اور من گھڑت قصے کہانیوں سے اجتناب کرنا ازحد ضروری ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 374