صحيح البخاري
كِتَاب الْمُزَارَعَةِ -- کتاب: کھیتی باڑی اور بٹائی کا بیان
11. بَابُ الْمُزَارَعَةِ مَعَ الْيَهُودِ:
باب: یہود کے ساتھ بٹائی کا معاملہ کرنا۔
حدیث نمبر: 2331
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَى خَيْبَرَ الْيَهُودَ عَلَى أَنْ يَعْمَلُوهَا وَيَزْرَعُوهَا، وَلَهُمْ شَطْرُ مَا خَرَجَ مِنْهَا".
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں عبیداللہ نے خبر دی، انہیں نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی زمین یہودیوں کو اس شرط پر سونپی تھی کہ اس میں محنت کریں اور جوتیں بوئیں اور اس کی پیداوار کا آدھا حصہ لیں۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1383  
´مزارعت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر والوں کے ساتھ خیبر کی زمین سے جو بھی پھل یا غلہ حاصل ہو گا اس کے آدھے پر معاملہ کیا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1383]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے مزارعت (بٹائی پرزمین دینے) کا جواز ثابت ہوتاہے،
ائمہ ثلاثہ اوردیگرعلمائے سلف وخلف سوائے امام ابوحنیفہ کے جواز کے قائل ہیں،
احناف نے خیبرکے معاملے کی تاویل یہ کی ہے کہ یہ لوگ آپﷺ کے غلام تھے،
لیکن یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے نُقرُكُم مَا أَقَركُمُ الله ہم تمہیں اس وقت تک برقراررکھیں گے جب تک اللہ تمہیں برقراررکھے گا،
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپ کے غلام نہیں تھے،
نیز احناف کا کہنا ہے کہ یہ معدوم یا مجہول پیداوار کے بدلے اجارہ ہے جو جائز نہیں،
اس کا جواب جمہوریہ دیتے ہیں کہ اس کی مثال مضارب کی ہے کہ مضارب جس طرح نفع کی امید پر محنت کرتا ہے اوروہ نفع مجہول ہے اس کے باوجود وہ جائز ہے،
اسی طرح مزارعت میں بھی یہ جائز ہوگا،
رہیں وہ روایات جو مزارعت کے عدم جواز پر دلالت کرتی ہیں توجمہور نے ان روایات کی تاویل کی ہے کہ یہ روایات نہی تنزیہی پر دلالت کرتی ہیں،
یا یہ ممانعت اس صورت میں ہے جب صاحب زمین کسی مخصوص حصے کی پیداوار خود لینے کی شرط کر لے (واللہ اعلم) حاصل بحث یہ ہے کہ مزارعت کی جائز شکل یہ ہے کہ مالک اوربٹائی پر لینے والے کے مابین زمین سے حاصل ہو نے والے غلّہ کی مقدار اس طرح متعین ہو کہ دونوں کے مابین جھگڑے کی نوبت نہ آئے اور غلّہ سے متعلق نقصان اور فائدہ میں طے شدہ امرکے مطابق دونوں شریک ہوں یا روپے کے عوض زمین بٹائی پر دی جائے اورمزارعت کی وہ شکل جوشرعاً ناجائز ہے وہ حنظلہ بن قیس انصاری کی روایت میں ہے،
وہ کہتے ہیں رافع بن خدیج کہتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں زمین کی بٹائی کا معاملہ اس شرط پر کرتے تھے کہ زمین کے اس مخصوص حصے کی پیداوارمیں لوں گا اورباقی حصے کی تم لینا،
تونبی اکرمﷺ نے اس سے منع فرما دیا کیونکہ اس صورت میں کبھی بٹائی پر لینے والے کا نقصان ہوتا کبھی دینے والے کا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1383   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3008  
´خیبر کی زمینوں کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب خیبر فتح ہوا تو یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ: آپ ہمیں اس شرط پر یہیں رہنے دیں کہ ہم محنت کریں گے اور جو پیداوار ہو گی اس کا نصف ہم لیں گے اور نصف آپ کو دیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا ہم تمہیں اس شرط پر رکھ رہے ہیں کہ جب تک چاہیں گے رکھیں گے،، چنانچہ وہ اسی شرط پر رہے، خیبر کی کھجور کے نصف کے کئی حصے کئے جاتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے پانچواں حصہ لیتے، اور اپنی ہر بیوی کو سو وسق کھجور اور بیس وسق جو (سال بھر میں) دیتے، پھر جب عمر رضی اللہ عنہ نے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3008]
فوائد ومسائل:

صحیح مسلم کی روایت کے مطابق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے زمین اور پانی کا انتخاب کیا۔
اور بعض دیگر ازواج مطہرات نے رضی اللہ عنہما نے حسب سابق متعین حصہ چنا۔
صحیح مسلم کی یہ روایت بھی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے ہے۔
اور زیادہ مفصل اور واضح ہے۔
اس روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے خیبر میں فے کی زمینوں کی آمدنی میں سے سالانہ خرچ کے طور پر اپنی ہر زوجہ محترمہ کو کل سو وسق اسی وسق کھجور اور بیس وسق جو مقرر فرمائے تھے۔
(صحیح مسلم، المساواة، حدیث:1551) ابو دائود کی حدیث 3006 میں بھی یہی مقدار مذکور ہے۔
البتہ موجودہ روایت میں کل سو وسق کی بجائے کھجور سو وسق اور اس کے علاوہ جو بیس وسق کی مقدار بیان کی گئی ہے۔
معلوم ہوتا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرنے والے رایوں میں سے کوئی راوی ظن وتخمین سے مقدار بیان کرتے ہوئے التباس کا شکار ہوگیا۔
اور کل سو کی بجائے کھجور سو وسق اور جو بیس وسق کا ذکرکیا گیا۔
(فتح الودود بحوالة عون المعبود باب ما جاء في حکم أرض خیبر)

خیبر کے طریق کے مطابق بٹائی پر زمین لینا اور دینا جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3008   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2331  
2331. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہودیوں کو خیبر کی زمین اس شرط پر دی کہ وہ اس میں محنت کریں اور کاشتکاری کریں، اس سے جو پیداوار ہوگی ان کو اس کا نصف ملے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2331]
حدیث حاشیہ:
(1)
مقصد یہ ہے کہ مزارعت کا معاملہ جیسے مسلمانوں میں ہو سکتا ہے اسی طرح مسلمان اور کافر میں بھی ہو سکتا ہے۔
چونکہ حدیث میں صرف یہود کا ذکر تھا، اس لیے عنوان میں انہی کو بیان کیا۔
بہرحال اسلام نے دنیاوی، تمدنی، معاشرتی اور اقتصادی معاملات میں تنگ نظری سے کام نہیں لیا بلکہ ایسے معاملات میں صرف انسانی مفاد کے پیش نظر وسعت نظری کا مظاہرہ کیا ہے۔
(2)
اقتصادی معاملات میں مسلم اور غیر مسلم کے لیے کوئی قدغن نہیں، البتہ عدل و انصاف کا مطالبہ مسلم اور کافر دونوں سے ہے۔
عدل و انصاف ہر جگہ ہر شخص کے لیے ضروری ہے۔
دور حاضر میں مسلمان زمین کے ہر حصے میں پھیلے ہوئے ہیں، بسا اوقات غیر مسلم لوگوں سے کاروباری تعلقات قائم ہو سکتے ہیں۔
اسلام نے ایسے معاملات میں مذہبی تعصب سے کام نہیں لیا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2331