صحيح البخاري
كِتَاب الْمُزَارَعَةِ -- کتاب: کھیتی باڑی اور بٹائی کا بیان
13. بَابُ إِذَا زَرَعَ بِمَالِ قَوْمٍ بِغَيْرِ إِذْنِهِمْ وَكَانَ فِي ذَلِكَ صَلاَحٌ لَهُمْ:
باب: جب کسی کے مال سے ان کی اجازت کے بغیر ہی کاشت کی اور اس میں ان کا ہی فائدہ رہا ہو۔
حدیث نمبر: 2333
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا أَبُو ضَمْرَةَ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" بَيْنَمَا ثَلَاثَةُ نَفَرٍ يَمْشُونَ، أَخَذَهُمُ الْمَطَرُ، فَأَوَوْا إِلَى غَارٍ فِي جَبَلٍ، فَانْحَطَّتْ عَلَى فَمِ غَارِهِمْ صَخْرَةٌ مِنَ الْجَبَلِ، فَانْطَبَقَتْ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: انْظُرُوا أَعْمَالًا عَمِلْتُمُوهَا صَالِحَةً لِلَّهِ، فَادْعُوا اللَّهَ بِهَا لَعَلَّهُ يُفَرِّجُهَا عَنْكُمْ، قَالَ أَحَدُهُمْ: اللَّهُمَّ إِنَّهُ كَانَ لِي وَالِدَانِ شَيْخَانِ كَبِيرَانِ وَلِي صِبْيَةٌ صِغَارٌ كُنْتُ أَرْعَى عَلَيْهِمْ، فَإِذَا رُحْتُ عَلَيْهِمْ حَلَبْتُ، فَبَدَأْتُ بِوَالِدَيَّ أَسْقِيهِمَا قَبْلَ بَنِيَّ، وَإِنِّي اسْتَأْخَرْتُ ذَاتَ يَوْمٍ فَلَمْ آتِ حَتَّى أَمْسَيْتُ، فَوَجَدْتُهُمَا نَامَا، فَحَلَبْتُ كَمَا كُنْتُ أَحْلُبُ، فَقُمْتُ عِنْدَ رُءُوسِهِمَا أَكْرَهُ أَنْ أُوقِظَهُمَا، وَأَكْرَهُ أَنْ أَسْقِيَ الصِّبْيَةَ، وَالصِّبْيَةُ يَتَضَاغَوْنَ عِنْدَ قَدَمَيَّ حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُهُ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ لَنَا فَرْجَةً نَرَى مِنْهَا السَّمَاءَ، فَفَرَجَ اللَّهُ، فَرَأَوْا السَّمَاءَ. وَقَالَ الْآخَرُ: اللَّهُمَّ إِنَّهَا كَانَتْ لِي بِنْتُ عَمٍّ أَحْبَبْتُهَا كَأَشَدِّ مَا يُحِبُّ الرِّجَالُ النِّسَاءَ، فَطَلَبْتُ مِنْهَا فَأَبَتْ عَلَيَّ حَتَّى أَتَيْتُهَا بِمِائَةِ دِينَارٍ، فَبَغَيْتُ حَتَّى جَمَعْتُهَا، فَلَمَّا وَقَعْتُ بَيْنَ رِجْلَيْهَا، قَالَتْ: يَا عَبْدَ اللَّهِ، اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تَفْتَحْ الْخَاتَمَ إِلَّا بِحَقِّهِ، فَقُمْتُ، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُهُ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ عَنَّا فَرْجَةً، فَفَرَجَ. وَقَالَ الثَّالِثُ: اللَّهُمَّ إِنِّي اسْتَأْجَرْتُ أَجِيرًا بِفَرَقِ أَرُزٍّ، فَلَمَّا قَضَى عَمَلَهُ، قَالَ: أَعْطِنِي حَقِّي، فَعَرَضْتُ عَلَيْهِ، فَرَغِبَ عَنْهُ، فَلَمْ أَزَلْ أَزْرَعُهُ حَتَّى جَمَعْتُ مِنْهُ بَقَرًا وَرَاعِيَهَا، فَجَاءَنِي، فَقَالَ: اتَّقِ اللَّهَ، فَقُلْتُ: اذْهَبْ إِلَى ذَلِكَ الْبَقَرِ وَرُعَاتِهَا فَخُذْ، فَقَالَ: اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تَسْتَهْزِئْ بِي، فَقُلْتُ: إِنِّي لَا أَسْتَهْزِئُ بِكَ فَخُذْ، فَأَخَذَهُ، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ مَا بَقِيَ، فَفَرَجَ اللَّهُ". قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَقَالَ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُقْبَةَ: عَنْ نَافِعٍ، فَسَعَيْتُ.
ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، ان سے ابوضمرہ نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تین آدمی کہیں چلے جا رہے تھے کہ بارش نے ان کو آ لیا۔ تینوں نے ایک پہاڑ کی غار میں پناہ لے لی، اچانک اوپر سے ایک چٹان غار کے سامنے آ گری، اور انہیں (غار کے اندر) بالکل بند کر دیا۔ اب ان میں سے بعض لوگوں نے کہا کہ تم لوگ اب اپنے ایسے کاموں کو یاد کرو۔ جنہیں تم نے خالص اللہ تعالیٰ کے لیے کیا ہو اور اسی کام کا واسطہ دے کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ ممکن ہے اس طرح اللہ تعالیٰ تمہاری اس مصیبت کو ٹال دے، چنانچہ ایک شخص نے دعا شروع کی۔ اے اللہ! میرے والدین بہت بوڑھے تھے اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے۔ میں ان کے لیے (جانور) چرایا کرتا تھا۔ پھر جب واپس ہوتا تو دودھ دوہتا۔ سب سے پہلے، اپنی اولاد سے بھی پہلے، میں والدین ہی کو دودھ پلاتا تھا۔ ایک دن دیر ہو گئی اور رات گئے گھر واپس آیا، اس وقت میرے ماں باپ سو چکے تھے۔ میں نے معمول کے مطابق دودھ دوہا اور (اس کا پیالہ لے کر) میں ان کے سرہانے کھڑا ہو گیا۔ میں نے پسند نہیں کیا کہ انہیں جگاؤں۔ لیکن اپنے بچوں کو بھی (والدین سے پہلے) پلانا مجھے پسند نہیں تھا۔ بچے صبح تک میرے قدموں پر پڑے تڑپتے رہے۔ پس اگر تیرے نزدیک بھی میرا یہ عمل صرف تیری رضا کے لیے تھا تو (غار سے اس چٹان کو ہٹا کر) ہمارے لیے اتنا راستہ بنا دے کہ آسمان نظر آ سکے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے راستہ بنا دیا اور انہیں آسمان نظر آنے لگا۔ دوسرے نے کہا اے اللہ! میری ایک چچازاد بہن تھی۔ مرد عورتوں سے جس طرح کی انتہائی محبت کر سکتے ہیں، مجھے اس سے اتنی ہی محبت تھی۔ میں نے اسے اپنے پاس بلانا چاہا لیکن وہ سو دینار دینے کی صورت راضی ہوئی۔ میں نے کوشش کی اور وہ رقم جمع کی۔ پھر جب میں اس کے دونوں پاؤں کے درمیان بیٹھ گیا، تو اس نے مجھ سے کہا، اے اللہ کے بندے! اللہ سے ڈر اور اس کی مہر کو حق کے بغیر نہ توڑ۔ میں یہ سنتے ہی دور ہو گیا، اگر میرا یہ عمل تیرے علم میں بھی تیری رضا ہی کے لیے تھا تو (اس غار سے) پتھر کو ہٹا دے۔ پس غار کا منہ کچھ اور کھلا۔ اب تیسرا بولا کہ اے اللہ! میں نے ایک مزدور تین فرق چاول کی مزدوری پر مقرر کیا تھا جب اس نے اپنا کام پورا کر لیا تو مجھ سے کہا کہ اب میری مزدوری مجھے دیدے۔ میں نے پیش کر دی لیکن اس وقت وہ انکار کر بیٹھا۔ پھر میں برابر اس کی اجرت سے کاشت کرتا رہا اور اس کے نتیجہ میں بڑھنے سے بیل اور چرواہے میرے پاس جمع ہو گئے۔ اب وہ شخص آیا اور کہنے لگا کہ اللہ سے ڈر! میں نے کہا کہ بیل اور اس کے چرواہے کے پاس جا اور اسے لے لے۔ اس نے کہا اللہ سے ڈر! اور مجھ سے مذاق نہ کر، میں نے کہا کہ مذاق نہیں کر رہا ہوں۔ (یہ سب تیرا ہی ہے) اب تم اسے لے جاؤ۔ پس اس نے ان سب پر قبضہ کر لیا۔ الہٰی! اگر تیرے علم میں بھی میں نے یہ کام تیری خوشنودی ہی کے لیے کیا تھا تو تو اس غار کو کھول دے۔ اب وہ غار پورا کھل چکا تھا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ ابن عقبہ نے نافع سے (اپنی روایت میں «فبغيت‏» کے بجائے) «فسعيت‏» نقل کیا ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2333  
2333. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: تین آدمی سفر میں جارہے تھے کہ انھیں بارش نے آلیا۔ انھوں نے ایک پہاڑ کی غار میں پناہ لی۔ غار کے منہ پر پہاڑ کے اوپر سے ایک پتھر آگرا جس سے غار کا منہ بند ہوگیا۔ انھوں نے ایک دوسرے سے کہا: تم ا پنے اپنے اعمال پر نظر کرو کہ کس نے کیا کیا نیک عمل خالص اللہ کی رضا کے لیے کیا ہے، پھر اس کے وسیلے سے اللہ سے دعا کرو شاید اللہ تعالیٰ اس مصیبت کو تم سے دور کردے، چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا: اےاللہ! میرے بوڑھے والدین اور چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ میں ان کے لیے بکریاں چرایا کرتا تھا۔ جب میں لوٹتا تو دودھ دوہتا اور اپنے بچوں سے پہلے اپنے والدین کو دودھ پلاتا۔ ایک دن مجھے دیر ہوگئی اور رات گئے تک گھر نہ آیا۔ جب آیا تو دیکھا کہ میرے والدین سو گئے ہیں۔ میں نے دودھ دوہا جیسا کہ میں دوہتا تھا اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2333]
حدیث حاشیہ:
دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے۔
یعنی میں نے محنت کرکے سو اشرفیاں جمع کیں۔
ابن عقبہ کی روایت کو خود امام بخاری ؒنے کتاب الادب میں وصل کیا ہے۔
تشریح:
اس حدیث طویل کے ذیل میں حضرت حافظ صاحبؒ فرماتے ہیں:
أَوْرَدَ فِيهِ حَدِيثَ الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ انْطَبَقَ عَلَيْهِمُ الْغَارُ وَسَيَأْتِي الْقَوْلُ فِي شَرْحِهِ فِي أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمَقْصُودُ مِنْهُ هُنَا قَوْلُ أَحَدِ الثَّلَاثَةِ فَعَرَضْتُ عَلَيْهِ أَيْ عَلَى الْأَجِيرِ حَقَّهُ فَرَغِبَ عَنْهُ فَلَمْ أَزَلْ أَزْرَعْهُ حَتَّى جَمَعْتُ مِنْهُ بَقَرًا وَرُعَاتِهَا فَإِنَّ الظَّاهِرَ أَنَّهُ عَيَّنَ لَهُ أُجْرَتَهُ فَلَمَّا تَرَكَهَا بَعْدَ أَنْ تَعَيَّنَتْ لَهُ ثُمَّ تَصَرَّفَ فِيهَا الْمُسْتَأْجِرُ بِعَينهَا صَارَت من ضَمَانه قَالَ بن الْمُنِيرِ مُطَابَقَةُ التَّرْجَمَةِ أَنَّهُ قَدْ عَيَّنَ لَهُ حَقَّهُ وَمَكَّنَهُ مِنْهُ فَبَرِئَتْ ذِمَّتَهُ بِذَلِكَ فَلَمَّا تَرَكَهُ وَضَعَ الْمُسْتَأْجِرُ يَدَهُ عَلَيْهِ وَضْعًا مُسْتَأْنَفًا ثُمَّ تَصَرَّفَ فِيهِ بِطَرِيقِ الْإِصْلَاحِ لَا بِطَرِيقِ التَّضْيِيعِ فَاغْتُفِرَ ذَلِكَ وَلَمْ يُعَدَّ تَعَدِّيًا وَلِذَلِكَ تَوَسَّلَ بِهِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَجَعَلَهُ مِنْ أَفْضَلِ أَعْمَالِهِ وَأُقِرَّ عَلَى ذَلِكَ وَوَقَعَتْ لَهُ الْإِجَابَةُ الخ (فتح الباري)
یعنی اس جگہ امام بخاری ؒ نے ان تین اشخاص والی حدیث کو نقل فرمایا جن کو غار نے چھپا لیا تھا، اس کی پوری شرح کتاب احادیث الانبیاء میں آئے گی۔
یہاں مقصود ان تینوں میں سے اس ایک شخص کا قول ہے جس نے کہا تھا کہ میں نے اپنے مزدور کو اس کا پورا حق دینا چاہا۔
لیکن اس نے انکار کر دیا۔
پس اس نے اس کی کاشت شروع کر دی، یاں تک کہ اس نے اس کی آمد سے بیل اوراس کی لیے ہالی خرید لئے۔
پس ظاہر ہے کہ اس نے اس مزدور کی اجرت مقرر کر رکھی تھی مگر اس نے اسے چھوڑ دیا۔
پھر اس مالک نے اپنی ذمہ داری پر اسے کاروبار میں لگایا۔
ابن منیر نے کہا کہ مطابقت یوں ہے کہ اس باغ والے نے اس کی اجرت مقرر کر دی اور اس کو دی۔
مگر اس مزدور نے اسے چھوڑ دیا۔
پھر اس شخص نے اصلاح اور ترقی کی نیت سے اسے بڑھانا شروع کر دیا۔
اسی نیت خیر کی وجہ سے اس نے اسے اپنا افضل عمل سمجھا اور بطور وسیلہ دربار الٰہی میں پیش کی اور اللہ اس نے اس عمل خیر کو قبول فرمایا اسی سے مقصد باب ثابت ہوا۔
اس سے اعمال کو بطور وسیلہ بوقت دعاءدربار الٰہی میں پیش کرنا بھی ثابت ہوا۔
یہی وہ وسیلہ ہے جس کا قرآن مجید میں حکم دیا گیا ہے ﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾ (المائدة: 35)
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور (اعمال خیر سے)
اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو، اور اللہ کے دین کی اشاعت کے لیے جد و جہد محنت کوشش بصورت جہاد وغیرہ جاری رکھو تاکہ تم کو کامیابی حاصل ہو۔
جو لوگ اعمال خیر کو چھوڑ کر بزرگوں کا وسیلہ ڈھونڈھتے ہیں اور اسی خیال باطل کے تحت ان کو اٹھتے بیٹھتے پکارتے ہیں وہ لوگ شرک کا ارتکاب کرکے عنداللہ زمرہ مشرکین میں لکھے جاتے ہیں۔
ابلیس علیه اللعنة کا یہ وہ فریب ہے جس میں نام نہاد اہل اسلام کی کثیر تعداد گرفتار ہے۔
اسی خیال باطل کے تحت بزرگان دین کی تاریخ ولادت و تاریخ وفات پر تقریبات کی جاتی ہیں۔
قربانیاں دی جاتی ہیں۔
عرس کئے جاتے ہیں۔
ان کے ناموں پر نذریں نیازیں ہوتی ہیں۔
یہ جملہ امور مشرکین قوموں سے سیکھے گئے ہیں اور جو مسلمان ان میں گرفتار ہیں ان کو اپنے دین و ایمان کی خیر منانی چاہئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2333   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2333  
2333. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: تین آدمی سفر میں جارہے تھے کہ انھیں بارش نے آلیا۔ انھوں نے ایک پہاڑ کی غار میں پناہ لی۔ غار کے منہ پر پہاڑ کے اوپر سے ایک پتھر آگرا جس سے غار کا منہ بند ہوگیا۔ انھوں نے ایک دوسرے سے کہا: تم ا پنے اپنے اعمال پر نظر کرو کہ کس نے کیا کیا نیک عمل خالص اللہ کی رضا کے لیے کیا ہے، پھر اس کے وسیلے سے اللہ سے دعا کرو شاید اللہ تعالیٰ اس مصیبت کو تم سے دور کردے، چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا: اےاللہ! میرے بوڑھے والدین اور چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ میں ان کے لیے بکریاں چرایا کرتا تھا۔ جب میں لوٹتا تو دودھ دوہتا اور اپنے بچوں سے پہلے اپنے والدین کو دودھ پلاتا۔ ایک دن مجھے دیر ہوگئی اور رات گئے تک گھر نہ آیا۔ جب آیا تو دیکھا کہ میرے والدین سو گئے ہیں۔ میں نے دودھ دوہا جیسا کہ میں دوہتا تھا اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2333]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں واضح طور پر ہے کہ تیسرے شخص نے ایک مزدور کا حق اسے پیش کیا تو اس نے لینے سے انکار کر دیا۔
اس کے بعد مالک نے اس کی مزدوری میں تصرف کیا اور اسے کام میں لگایا، اگر یہ تصرف جائز نہ ہوتا تو اللہ کی نافرمانی ہوتی جو سراسر گناہ ہے پھر اس سے اللہ تعالیٰ کا قرب کیونکر حاصل ہو سکتا تھا۔
چونکہ اس نے مزدور کی مرضی کے بغیر اسے کام میں لگایا تھا اس بنا پر اگر اس کی مزدوری ضائع ہو جاتی تو اس پر تاوان واجب تھا، اس بنا پر عنوان صحیح ہے اور یہ حدیث بھی اس کے مطابق ہے۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنے نیک اعمال کے وسیلے سے دعا کرنا جائز اور مشروع ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے شارح بخاری ابن منیر کے حوالے سے لکھا ہے:
اس شخص نے مزدور کی اجرت مقرر کر کے اس کے حوالے کر دی مگر اس نے لینے سے انکار کر دیا اور اسے چھوڑ کر چلا گیا، چنانچہ اس شخص نے ترقی اور اصلاح کی نیت سے اسے بڑھانا شروع کر دیا۔
اسے ضائع کرنا مقصود نہیں تھا، اسی نیت خیر کی وجہ سے اس نے اسے اپنا بہترین عمل خیال کیا اور بطور وسیلہ اللہ کے حضور پیش کیا۔
اللہ تعالیٰ نے اسے قبول فرما کر انہیں نجات دی، اس کے باوجود اگر مزدوری ضائع ہو جاتی تو اس کا تاوان ادا کرنا ہوتا کیونکہ اس نے تصرف کی اجازت نہیں دی تھی۔
(فتح الباري: 21/5) (3)
واضح رہے کہ جو لوگ اعمال خیر چھوڑ کر بزرگوں کا وسیلہ ڈھونڈتے ہیں، پھر وہ ان کے نام پر نذریں، نیازیں دیتے ہیں انہیں اپنے دین و ایمان کی خیر منانی چاہیے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ﴾ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی ذریعہ تلاش کرو۔
(المائدة: 35: 5)
اعمال خیر کے بغیر کسی اور چیز سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کیا جا سکتا، اس لیے ہمیں نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اخلاص کی دولت سے مالا مال فرمائے۔
آمین
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2333