سنن نسائي
كتاب الاستسقاء -- کتاب: بارش طلب کرنے کے احکام و مسائل
16. بَابُ : كَرَاهِيَةِ الاِسْتِمْطَارِ بِالْكَوْكَبِ
باب: ستاروں کی گردش پر پانی برسنے کا اعتقاد رکھنا جائز نہیں۔
حدیث نمبر: 1527
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلَاءِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عَتَّابِ بْنِ حُنَيْنٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ أَمْسَكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْمَطَرَ عَنْ عِبَادِهِ خَمْسَ سِنِينَ ثُمَّ أَرْسَلَهُ , لَأَصْبَحَتْ طَائِفَةٌ مِنَ النَّاسِ كَافِرِينَ , يَقُولُونَ: سُقِينَا بِنَوْءِ الْمِجْدَحِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے پانچ سال تک بارش روکے رکھے، پھر اسے چھوڑے تو بھی لوگوں میں سے ایک گروہ کافر ہی رہے گا، کہے گا: ہم تو مجدح ستارے کے سبب برسائے گئے ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 4148)، مسند احمد 3/7، سنن الدارمی/الرقاق 49 (2804) (ضعیف) (اس کے راوی ’’عتاب‘‘ لین الحدیث ہیں)»

وضاحت: ۱؎: مجدح ستارے ان ستاروں میں سے ایک ستارے کا نام ہے جو عربوں کے نزدیک بارش پر دلالت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے بارش بند ہونے کی دعا کرے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1527  
´ستاروں کی گردش پر پانی برسنے کا اعتقاد رکھنا جائز نہیں۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے پانچ سال تک بارش روکے رکھے، پھر اسے چھوڑے تو بھی لوگوں میں سے ایک گروہ کافر ہی رہے گا، کہے گا: ہم تو مجدح ستارے کے سبب برسائے گئے ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب الاستسقاء/حدیث: 1527]
1527۔ اردو حاشیہ:
➊ امام نسائی رحمہ اللہ عمل الیوم واللیلۃ میں لکھتے ہیں کہ مجدح سے مراد شعری ستارہ ہے جبکہ امام سندھی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ ستاروں میں سے ایک ستارہ ہے۔ اسے دبران کہتے ہیں۔ تین ستاروں کے مجموعے کو بھی مجدح کہا جاتا ہے۔ جو عربوں کے خیال میں بارش برساتا تھا، مگر یہ خیال غلط ہے۔ بات صرف اتنی تھی کہ ان تاروں کے طلوع کے زمانے میں بارش ہوتی تھی۔
مجدح میم کی زیر اور پیش دونوں کے ساتھ پڑھا جا سکتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1527