سنن نسائي
كتاب صلاة الخوف -- کتاب: نماز خوف کے احکام و مسائل
1. بَابُ :
باب:
حدیث نمبر: 1547
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ، قال: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمَسْعُودِيُّ، قال: أَنْبَأَنِي يَزِيدُ الْفَقِيرُ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، قال: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُقِيمَتِ الصَّلَاةُ:" فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَامَتْ خَلْفَهُ طَائِفَةٌ وَطَائِفَةٌ مُوَاجِهَةَ الْعَدُوِّ، فَصَلَّى بِالَّذِينَ خَلْفَهُ رَكْعَةً وَسَجَدَ بِهِمْ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ إِنَّهُمُ انْطَلَقُوا فَقَامُوا مَقَامَ أُولَئِكَ الَّذِينَ كَانُوا فِي وَجْهِ الْعَدُوِّ، وَجَاءَتْ تِلْكَ الطَّائِفَةُ فَصَلَّى بِهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَةً وَسَجَدَ بِهِمْ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَلَّمَ فَسَلَّمَ الَّذِينَ خَلْفَهُ وَسَلَّمَ أُولَئِكَ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ہم (ایک غزوہ میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے (نماز کا وقت ہوا) تو نماز کھڑی کی گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، اور آپ کے پیچھے ایک گروہ کھڑا ہوا، اور ایک گروہ دشمن کے مقابل کھڑا رہا، آپ نے ان لوگوں کے ساتھ جو آپ کے پیچھے تھے ایک رکوع اور دو سجدے کیے، پھر وہ چلے گئے، اور ان لوگوں کی جگہ آ کر کھڑے ہو گئے جو دشمن کے بالمقابل تھے، اور وہ گروہ آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ بھی ایک رکوع اور دو سجدے کئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا، تو آپ کے پیچھے والوں نے بھی سلام پھیرا، اور ان لوگوں نے بھی۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 381  
´نماز خوف کا بیان`
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز خوف میں حاضر تھا۔ ہم نے دو صفیں بنائیں ایک صف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑی ہوئی جبکہ دشمن ہمارے اور قبلہ کے درمیان میں تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر کہا اور ہم سب نے بھی اللہ اکبر کہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع سے سر اوپر اٹھایا اور ہم سب نے بھی اپنے سر اٹھائے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں چلے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ والی صف بھی اور دوسری صف دشمن کے مقابلے کیلئے کھڑی رہی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ پورا کر لیا تو وہ صف جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تھی کھڑی ہو گئی۔ پھر راوی نے ساری حدیث بیان کی۔ ایک روایت میں ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پہلی صف نے بھی سجدہ کیا اور جب وہ سب کھڑے ہو گئے تو دوسری صف سجدے میں چلی گئی اور پہلی صف پیچھے ہٹ گئی اور دوسری صف آگے آ گئی اور پہلے کی طرح ہی ذکر کیا اور آخر پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا اور ہم سب نے بھی سلام پھیر دیا (مسلم) اور ابوداؤد نے ابو عیاش زرقی سے اس طرح روایت نقل کی ہے لیکن اس میں یہ اضافہ ہے کہ وہ عسفان مقام پر (ادا کی گئی) تھی۔ اور نسائی نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے ایک دوسری سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کے ایک گروہ کو دو رکعتیں پڑھائیں پھر سلام پھیر دیا پھر ایک دوسرے گروہ کو اسی طرح دو رکعات پڑھا کر سلام پھیر دیا۔ ابوداؤد میں سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے اسی طرح کی ایک روایت ہے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 381»
تخریج:
«أخرجه مسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة الخوف، حديث:840، وحديث أبي عياش الزرقي أخرجه أبوداود، صلاة السفر، حديث:1236 وسنده صحيح،وحديث جابر أخرجه النسائي، صلاة الخوف، حديث:1553 وهو حديث صحيح، وحديث أبي بكرة أخرجه أبوداود، صلاة السفر، حديث:1248 وهو حديث صحيح.»
تشریح:
اس حدیث میں نماز خوف کی ایک اور صورت ہے۔
ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں کہ نماز خوف مختلف طریقوں سے پڑھی گئی ہے۔
سنن نسائی میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی روایت کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں جماعتوں کو الگ الگ دو دو رکعتیں پڑھائیں۔
اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار رکعتیں ہوئیں۔
تو گویا آپ نے دو تو فرض پڑھے اور دو نفل ادا کیے کیونکہ دو مرتبہ دو دو فرض تو نہیں ہوتے۔
اس سے یہ معلوم ہوا کہ نفل پڑھنے والے امام کے پیچھے مقتدی فرض پڑھ سکتے ہیں۔
احناف نے اس مقام پر انصاف سے کام نہیں لیا۔
چاہیے تو یہ تھا کہ قیاس کو چھوڑ کر حدیث صحیح کی اتباع کرتے لیکن ہوا یوں کہ امام طحاوی رحمہ اللہ جیسے صاحب علم و فضل نے تو الٹا اس حدیث کے منسوخ ہونے کا دعویٰ کر دیا‘ حالانکہ اس کے منسوخ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت ابوعیاش زُرَقی رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ان کا نام زید بن ثابت ہے۔
انصاری زرقی مشہور ہیں۔
زرقی کے زا پر ضمہ اور را پر فتحہ ہے۔
ان سے ایک جماعت نے روایت کیا ہے۔
۴۰ ہجری کے بعد وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 381