صحيح البخاري
كِتَاب الْمُزَارَعَةِ -- کتاب: کھیتی باڑی اور بٹائی کا بیان
16. بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 2337
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" اللَّيْلَةَ أَتَانِي آتٍ مِنْ رَبِّي وَهُوَ بِالْعَقِيقِ، أَنْ صَلِّ فِي هَذَا الْوَادِي الْمُبَارَكِ، وَقُلْ عُمْرَةٌ فِي حَجَّةٍ".
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب بن اسحاق نے خبر دی، ان سے امام اوزاعی نے بیان کیا کہ مجھ سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے، اور ان سے عمر رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رات میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا فرشتہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت وادی عقیق میں قیام کئے ہوئے تھے۔ (اور اس نے یہ پیغام پہنچایا کہ) اس مبارک وادی میں نماز پڑھ اور کہا کہ کہہ دیجئیے! عمرہ حج میں شریک ہو گیا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2976  
´حج تمتع کا بیان۔`
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وادی عقیق ۱؎ میں فرماتے سنا: میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا آیا، اور اس نے کہا: اس مبارک وادی میں نماز پڑھو اور کہو: یہ عمرہ ہے حج میں (یہ الفاظ دحیم کے ہیں)۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2976]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
آنے والے سے مراد فرشتہ ہے جس نے آ کر بتایا کہ حج کے ساتھ عمرے کی نیت بھی کر لیجیے۔

(2)
حج میں عمرہ داخل ہونے کا ایک مطلب یہ ہے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ ادا کرنا جائز ہے۔
جب کہ اہل عرب اس کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔
دوسرا مطلب یہ ہے کہ حج قران میں حج اور عمرے کے لیے ایک ہی احرام ایک ہی طواف اور ایک ہی سعی کافی ہے۔
یعنی حج کے اعمال ادا کرنے سے عمرے کے اعمال خود بخود ادا شدہ سمجھے جائیں گے۔
واللہ اعلم۔

(3)
وادی عتیق مدینہ کے قریب چار میل کے فاصلے پر واقع ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2976   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1800  
´حج قران کا بیان۔`
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: آج رات میرے پاس میرے رب عزوجل کی جانب سے ایک آنے والا (جبرائیل) آیا (آپ اس وقت وادی عقیق ۱؎ میں تھے) اور کہنے لگا: اس مبارک وادی میں نماز پڑھو، اور کہا: عمرہ حج میں شامل ہے۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: ولید بن مسلم اور عمر بن عبدالواحد نے اس حدیث میں اوزاعی سے یہ جملہ «وقل عمرة في حجة» (کہو! عمرہ حج میں ہے) نقل کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح اس حدیث میں علی بن مبارک نے یحییٰ بن ابی کثیر سے «وقل عمرة في حجة» کا جملہ نقل ۲؎ کیا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1800]
1800. اردو حاشیہ: وادی عقیق مدینہ کے قریب چار میل کے فاصلے پر واقع ہے اور ذوالحلیفہ سے ہو کر گزرتی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1800   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2337  
2337. حضرت عمر ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ جب آپ وادی عقیق میں تھے تو آپ نے فرمایا: آج رات میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا میرے پاس آیا۔ اس نے کہا: آپ اس مبارک وادی میں نماز پڑھیں اور فرمائیں کہ عمرہ حج میں داخل ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2337]
حدیث حاشیہ:
مجتہد مطلق حضرت امام بخاری ؒ اس مسئلہ کو مزید واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بنجر اور غیر آباد زمین پر جو کسی کی بھی ملکیت نہ ہو، ہل چلانے والا اس کا مالک بن جاتا ہے کیوں کہ نبی کریم ﷺ نے وادی عقیق میں قیام فرمایا جو کسی کی ملکیت نہ تھی۔
اس لیے یہ وادی رسول کریم ﷺ کے قیام کرنے کی جگہ بن گئی، بالکل اسی طرح غیر آباد اور ناملکیت زمین کا آباد کرنے والا اس کا مالک بن جاتا ہے۔
آج کل چونکہ زمین کا چپہ چپہ ہر ملک کی حکومت کی ملکیت مانا گیا ہے اس لیے ایسی زمینات کے لیے حکومت کی اجازت ضروری ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2337   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2337  
2337. حضرت عمر ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ جب آپ وادی عقیق میں تھے تو آپ نے فرمایا: آج رات میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا میرے پاس آیا۔ اس نے کہا: آپ اس مبارک وادی میں نماز پڑھیں اور فرمائیں کہ عمرہ حج میں داخل ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2337]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس باب کا کوئی عنوان نہیں ہے گویا یہ پہلے باب کا تکملہ ہے۔
پہلے باب سے اس کی مناسبت اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ذوالحلیفہ کی زمین کے متعلق حکم نہیں دیا کہ جو کوئی اسے آباد کرے گا تو وہ اس کی ملک ہو گی کیونکہ ذوالحلیفہ لوگوں کے پڑاؤ کی جگہ ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ جو غیر آباد جگہ کسی اجتماعی مفاد کے لیے ہو وہ کسی کی ملکیت نہیں ہو سکتی وہاں ہر شخص پڑاؤ کر سکتا ہے۔
(2)
رسول اللہ ﷺ نے وادئ عقیق میں قیام فرمایا جو کسی کی ملکیت نہیں تھی، آپ کے قیام کرنے سے وہ عام لوگوں کے لیے پڑاؤ کا مقام بن گئی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2337