سنن نسائي
كتاب صلاة الخوف -- کتاب: نماز خوف کے احکام و مسائل
1. بَابُ :
باب:
حدیث نمبر: 1549
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قال: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَخْلٍ وَالْعَدُوُّ بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ" فَكَبَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَبَّرُوا جَمِيعًا ثُمَّ رَكَعَ فَرَكَعُوا جَمِيعًا , ثُمَّ سَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالصَّفُّ الَّذِي يَلِيهِ وَالْآخَرُونَ قِيَامٌ يَحْرُسُونَهُمْ، فَلَمَّا قَامُوا سَجَدَ الْآخَرُونَ مَكَانَهُمُ الَّذِي كَانُوا فِيهِ , ثُمَّ تَقَدَّمَ هَؤُلَاءِ إِلَى مَصَافِّ هَؤُلَاءِ فَرَكَعَ فَرَكَعُوا جَمِيعًا , ثُمَّ رَفَعَ فَرَفَعُوا جَمِيعًا ثُمَّ سَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالصَّفُّ الَّذِينَ يَلُونَهُ وَالْآخَرُونَ قِيَامٌ يَحْرُسُونَهُمْ , فَلَمَّا سَجَدُوا وَجَلَسُوا سَجَدَ الْآخَرُونَ مَكَانَهُمْ ثُمَّ سَلَّمَ" , قَالَ جَابِرٌ: كَمَا يَفْعَلُ أُمَرَاؤُكُمْ.
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کچھ کھجور کے باغات میں تھے، اور دشمن ہمارے اور قبلہ کے درمیان تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر تحریمہ کہی، تو سبھوں نے تکبیر تحریمہ کہی، پھر آپ نے رکوع کیا، تو سبھوں نے رکوع کیا، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور اس صف نے جو آپ سے قریب تھی سجدہ کیا، اور دوسرے لوگ کھڑے ان کی حفاظت کرتے رہے، پھر جب وہ کھڑے ہو گئے تو دوسروں نے بھی اپنی جگہوں پر جہاں وہ تھے سجدہ کیا، پھر وہ لوگ ان لوگوں کی جگہ پر آگے آ گئے ۱؎ پھر آپ نے رکوع کیا، تو سبھوں نے ایک ساتھ رکوع کیا، پھر آپ نے (رکوع سے سر) اٹھایا تو سبھوں نے سر اٹھایا، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا، اور اس صف نے جو آپ سے قریب تھی، اور دوسرے لوگ کھڑے ان کی پہریداری کرتے رہے، پھر جب وہ لوگ سجدہ کر چکے اور (سجدہ کے بعد) بیٹھ گئے، تو دوسروں نے بھی اپنی جگہوں میں سجدہ کیا، پھر آپ نے سلام پھیرا، جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: جس طرح تمہارے امراء کرتے ہیں، (یعنی سلام پھیرتے ہیں)۔

تخریج الحدیث: «وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المسافرین 57 (840)، تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 2759) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آ گئے، اور جو لوگ آپ سے قریب تھے ان کی جگہ پر چلے گئے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1549  
´باب:`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کچھ کھجور کے باغات میں تھے، اور دشمن ہمارے اور قبلہ کے درمیان تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر تحریمہ کہی، تو سبھوں نے تکبیر تحریمہ کہی، پھر آپ نے رکوع کیا، تو سبھوں نے رکوع کیا، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور اس صف نے جو آپ سے قریب تھی سجدہ کیا، اور دوسرے لوگ کھڑے ان کی حفاظت کرتے رہے، پھر جب وہ کھڑے ہو گئے تو دوسروں نے بھی اپنی جگہوں پر جہاں وہ تھے سجدہ کیا، پھر وہ لوگ ان لوگوں کی جگہ پر آگے آ گئے ۱؎ پھر آپ نے رکوع کیا، تو سبھوں نے ایک ساتھ رکوع کیا، پھر آپ نے (رکوع سے سر) اٹھایا تو سبھوں نے سر اٹھایا، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا، اور اس صف نے جو آپ سے قریب تھی، اور دوسرے لوگ کھڑے ان کی پہریداری کرتے رہے، پھر جب وہ لوگ سجدہ کر چکے اور (سجدہ کے بعد) بیٹھ گئے، تو دوسروں نے بھی اپنی جگہوں میں سجدہ کیا، پھر آپ نے سلام پھیرا، جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: جس طرح تمہارے امراء کرتے ہیں، (یعنی سلام پھیرتے ہیں)۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة الخوف/حدیث: 1549]
1549۔ اردو حاشیہ:
➊ اگر بچہ بلوغت سے پہلے بے گناہ ہوتا ہے مگر جنازہ مسلم میت کی سنت ہے، نیز بخشش اور دعائے رحمت بچے کے والدین کے لیے ہو گی، اس لیے بچے کا جنازہ بھی پڑھا جائے گا۔
➋ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت یا جہنم میں جانے والوں کا قطعی علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، کسی فرد واحد کو قطعیت کے ساتھ جنتی یا جہنمی نہیں کہا: جا سکتا (جب تک وحی نہ آئے) خواہ وہ نابالغ بچہ ہی ہو، البتہ عمومی حکم یہی ہے کہ مسلمانوں کے بچے (بلوغت سے پہلے فوت ہونے والے) جنات میں جائیں گے۔ ایک دوسری تطبیق اس طرح ہو سکتی ہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب بچوں کے بارے میں کوئی خصوصی حکم نازل نہیں ہوا تھا بعد میں بتا دیا گیا کہ مسلمانوں کے بچے جنت میں جائیں گے۔ کفار کے بچوں کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض اہل علم کا موقف یہ ہے کہ جب کفار کے بچے سن تمیز سے پہلے فوت ہو جائیں اور ان کے والد کافر ہوں تو دنیا میں ان کا حکم کافروں کا ہو گا کہ نہ انہیں غسل دیا جائے گا نہ کفن دیا جائے گا نہ جنازہ پڑھا جائے گا اور نہ انہیںمسلمانوں کے ساتھ دفن کیا جائے گا کیونکہ وہ اپنے والدین کے ساتھ کافر ہی ہیں باقی رہا آخرت میں ان کا حال تو یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اگر وہ بڑے ہوتے تو دنیا میں کس طرح کے عمل کرتے؟ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب مشرکوں کے بچوں کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرنے والے تھے؟ (صحیح البخاري، القدر، حدیث: 6597) نیز بعض اہل علم کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا علم قیامت کے دن ظاہر ہو گا اور ان کا بھی اہل فترت کی طرح امتحان ہو گا اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی فرمانبرداری کی تو جنت میں داخل ہوں گے اور اگر نافرمانی کی تو جہنم رسید ہوں گے۔ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ اہل فترت کا قیامت کے دن امتحان ہو گا۔ اہل فترت سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے پاس انبیاء کی دعوت نہیں پہنچی ہو گی۔ اسی طرح جو لوگ ان کے حکم میں ہوں گے، مثلاً: کفار اور مشرکین کے بچے، ان کا بھی امتحان ہو گا کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا) (بنی اسرآئیل 15: 17) اہل فترت کے بار میں سب سے زیادہ صحیح قول یہی ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ، امام ابن قیم، فضیلۃ الشیخ ابن باز اور فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح التثیمین رحمہم اللہ نے اسی کو اختیار کیا ہے جبکہ بعض اہل علم کے بقول وہ جنت میں جائیں گے کیونکہ وہ بے گناہ ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتاویٰ ابن تیمیہ: 372/24، 273، و ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائي: 193/19- 196)
➌ جنت اور جہنم کا وجود ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1549   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 381  
´نماز خوف کا بیان`
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز خوف میں حاضر تھا۔ ہم نے دو صفیں بنائیں ایک صف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑی ہوئی جبکہ دشمن ہمارے اور قبلہ کے درمیان میں تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر کہا اور ہم سب نے بھی اللہ اکبر کہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع سے سر اوپر اٹھایا اور ہم سب نے بھی اپنے سر اٹھائے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں چلے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ والی صف بھی اور دوسری صف دشمن کے مقابلے کیلئے کھڑی رہی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ پورا کر لیا تو وہ صف جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تھی کھڑی ہو گئی۔ پھر راوی نے ساری حدیث بیان کی۔ ایک روایت میں ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پہلی صف نے بھی سجدہ کیا اور جب وہ سب کھڑے ہو گئے تو دوسری صف سجدے میں چلی گئی اور پہلی صف پیچھے ہٹ گئی اور دوسری صف آگے آ گئی اور پہلے کی طرح ہی ذکر کیا اور آخر پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا اور ہم سب نے بھی سلام پھیر دیا (مسلم) اور ابوداؤد نے ابو عیاش زرقی سے اس طرح روایت نقل کی ہے لیکن اس میں یہ اضافہ ہے کہ وہ عسفان مقام پر (ادا کی گئی) تھی۔ اور نسائی نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے ایک دوسری سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کے ایک گروہ کو دو رکعتیں پڑھائیں پھر سلام پھیر دیا پھر ایک دوسرے گروہ کو اسی طرح دو رکعات پڑھا کر سلام پھیر دیا۔ ابوداؤد میں سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے اسی طرح کی ایک روایت ہے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 381»
تخریج:
«أخرجه مسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة الخوف، حديث:840، وحديث أبي عياش الزرقي أخرجه أبوداود، صلاة السفر، حديث:1236 وسنده صحيح،وحديث جابر أخرجه النسائي، صلاة الخوف، حديث:1553 وهو حديث صحيح، وحديث أبي بكرة أخرجه أبوداود، صلاة السفر، حديث:1248 وهو حديث صحيح.»
تشریح:
اس حدیث میں نماز خوف کی ایک اور صورت ہے۔
ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں کہ نماز خوف مختلف طریقوں سے پڑھی گئی ہے۔
سنن نسائی میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی روایت کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں جماعتوں کو الگ الگ دو دو رکعتیں پڑھائیں۔
اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار رکعتیں ہوئیں۔
تو گویا آپ نے دو تو فرض پڑھے اور دو نفل ادا کیے کیونکہ دو مرتبہ دو دو فرض تو نہیں ہوتے۔
اس سے یہ معلوم ہوا کہ نفل پڑھنے والے امام کے پیچھے مقتدی فرض پڑھ سکتے ہیں۔
احناف نے اس مقام پر انصاف سے کام نہیں لیا۔
چاہیے تو یہ تھا کہ قیاس کو چھوڑ کر حدیث صحیح کی اتباع کرتے لیکن ہوا یوں کہ امام طحاوی رحمہ اللہ جیسے صاحب علم و فضل نے تو الٹا اس حدیث کے منسوخ ہونے کا دعویٰ کر دیا‘ حالانکہ اس کے منسوخ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت ابوعیاش زُرَقی رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ان کا نام زید بن ثابت ہے۔
انصاری زرقی مشہور ہیں۔
زرقی کے زا پر ضمہ اور را پر فتحہ ہے۔
ان سے ایک جماعت نے روایت کیا ہے۔
۴۰ ہجری کے بعد وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 381