سنن نسائي
كتاب صلاة العيدين -- کتاب: عیدین (عیدالفطر اور عیدالاضحی) کی نماز کے احکام و مسائل
5. بَابُ : الزِّينَةِ لِلْعِيدَيْنِ
باب: عیدین کے لیے زیب و زینت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1561
أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، عَنِ ابْنِ وَهْبٍ، قال: أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ , وَعَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ , عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قال: وَجَدَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حُلَّةً مِنْ إِسْتَبْرَقٍ بِالسُّوقِ فَأَخَذَهَا، فَأَتَى بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , ابْتَعْ هَذِهِ فَتَجَمَّلْ بِهَا لِلْعِيدِ وَالْوَفْدِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا هَذِهِ لِبَاسُ مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ , أَوْ إِنَّمَا يَلْبَسُ هَذِهِ مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ" , فَلَبِثَ عُمَرُ مَا شَاءَ اللَّهُ , ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجُبَّةِ دِيبَاجٍ , فَأَقْبَلَ بِهَا حَتَّى جَاءَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , قُلْتَ: إِنَّمَا هَذِهِ لِبَاسُ مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ , ثُمَّ أَرْسَلْتَ إِلَيَّ بِهَذِهِ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بِعْهَا وَتُصِبْ بِهَا حَاجَتَكَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بازار میں موٹے ریشمی کپڑے کا ایک جوڑا (بکتے ہوئے) پایا، تو اسے لیا، اور اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! اسے خرید لیں، اور عید کے لیے اور وفود سے ملتے وقت اسے پہنیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اس شخص کا لباس ہے جس کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہ ہو گا، یا اسے تو وہی پہنے گا جس کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہ ہو گا، تو عمر رضی اللہ عنہ ٹھہرے رہے جب تک اللہ نے چاہا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس باریک ریشمی کپڑے کا ایک جبہ بھیجا، تو وہ اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا تھا کہ یہ اس شخص کا لباس ہے جس کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہیں، پھر آپ نے اسے میرے پاس بھیج دیا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے بیچ دو، اور اس سے اپنی ضرورت پوری کرو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/اللباس 1 (2068)، سنن ابی داود/الصلاة 219 (1077)، اللباس 10 (4040)، (تحفة الأشراف: 6895) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ میں نے اسے تمہارے پاس اس لیے نہیں بھیجا ہے کہ تم خود اسے پہنو، بلکہ اس لیے بھیجا ہے کہ بیچ کر تم اس کی قیمت اپنی ضرورت میں صرف کرو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 412  
´مردوں کے لئے ریشم کا لباس پہننا جائز نہیں ہے`
«. . . 252- وبه: أن عمر بن الخطاب رأى حلة سيراء تباع عند باب المسجد، فقال: يا رسول الله، لو اشتريت هذه فلبستها يوم الجمعة وللوفد إذا قدموا عليك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنما يلبس هذه من لا خلاق له فى الآخرة، ثم جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم منها حلل، فأعطى عمر بن الخطاب منها حلة، فقال عمر: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم، كسوتنيها وقد قلت فى حلة عطارد ما قلت؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لم أكسكها لتلبسها، فكساها عمر بن الخطاب أخا له مشركا بمكة. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مسجد کے دروازے کے پاس ایک ریشمی کپڑا بکتے ہوئے دیکھا تو کہا: یا رسول اللہ! اگر آپ اسے خرید لیں تو جمعہ کے دن اور جب آپ کے پاس کوئی وفد آئے تو پہن لیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو وہی شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ریشم کے کپڑے (مال غنیمت میں) لائے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک کپڑا سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! آپ نے مجھے یہ کپڑا دیا ہے حالانکہ آپ نے عطارد کے کپڑے کے بارے میں جو ارشاد فرمایا تھا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمھیں یہ کپڑا پہننے کے لئے نہیں دیا۔ پھر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے مکہ میں اپنے مشرک بھائی کو یہ کپڑا پہننے کے لئے دے دیا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 412]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 886، 2612، ومسلم 6/2068، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ جمعہ، عیدین اور خاص موقعوں پر بہترین نیا یا پاک و صاف لباس پہننا مسنون ہے۔
➋ مردوں کے لئے ریشمی لباس پہننا حرام ہے۔
➌ اگر خیر کی امید ہو تو کفار و مشرکین کو تحائف دینا جائز ہے۔
➍ مسجد کے قریب اور دروازے سے باہر خرید و فروخت جائز ہے۔
➎ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہ) کو دیکھا جب وہ امیر المؤمنین تھے، آپ کے کرتے پر دونوں کندھوں کے درمیان میں ایک دوسرے کے اوپر تین پیوند لگے ہوئے تھے۔ [الموطا 918/1 ح1771، وسنده صحيح]
➏ اس پر اجماع ہے کہ عورتوں کے لئے ریشمی لباس (اور سونا پہننا) حلال ہے۔ [التمهيد 241/14،]
➐ کفار ومشرکین پر شریعتِ اسلامیہ کے عمومی احکامات نافذ نہیں اِلا یہ کہ کسی خاص حکم کی کوئی تخصیص ثابت ہو۔
➑ بعض روایات وآثار سے ثابت ہے کہ اگر مردانہ لباس میں بعض جگہ تھوڑا سا ریشم استعمال کر لیا جائے تو جائز ہے اور اسی طرح سونے کا دانت لگانا بھی جائز ہے۔
➒ اگر کوئی شخص بیمار ہو اور اس کے لئے ریشمی لباس مفید ہو تو استثنائی حکم کی وجہ سے اس کے لئے ریشمی لباس پہننا جائز ہے۔
➓ حافظ ابن عبدالبر نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ غیرمسلموں کو (جو اسلام کے دشمن ہیں) فرض زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے اور باقی صدقات مثلاً صدقۂ فطر، کفارہ قسم اور کفارۂ ظہار بھی اسی حکم میں ہیں جبکہ نفلی صدقات دینا جائز ہے۔ دیکھئے: [التمهيد 14/263]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 252   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1561  
´عیدین کے لیے زیب و زینت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بازار میں موٹے ریشمی کپڑے کا ایک جوڑا (بکتے ہوئے) پایا، تو اسے لیا، اور اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! اسے خرید لیں، اور عید کے لیے اور وفود سے ملتے وقت اسے پہنیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اس شخص کا لباس ہے جس کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہ ہو گا، یا اسے تو وہی پہنے گا جس کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہ ہو گا، تو عمر رضی اللہ عنہ ٹھہرے رہے جب تک اللہ نے چاہا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس باریک ریشمی کپڑے کا ایک جبہ بھیجا، تو وہ اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا تھا کہ یہ اس شخص کا لباس ہے جس کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہیں، پھر آپ نے اسے میرے پاس بھیج دیا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے بیچ دو، اور اس سے اپنی ضرورت پوری کرو ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 1561]
1561۔ اردو حاشیہ:
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ جبہ نہیں خریدا اس کی وجہ اس کا ریشمی ہونا تھا، نہ کہ زیب و زینت ہونا، لہٰذا مصنف رحمہ اللہ کا باب پر اس روایت سے استدلال صحیح ہے۔
➋ جس چیز کا استعمال بعض افراد کے لیے جائز ہو اور بعض کے لیے ناجائز، اسے کسی کو بھی بطور تحفہ دیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ خود استعمال نہ کرے گا تو دوسرے کو دے دے گا یا بیچ ڈالے گا۔ ایسی چیز کی تجارت بھی جائز ہے، جیسے ریشم وغیرہ، البتہ جو چیز مطلقاً حرام ہے وہ نہ کسی کو تحفے میں دی جا سکتی ہے اور نہ اس کی تجارت جائز ہے، جیسے شراب اور خنزیر وغیرہ۔
یہ ان کا لباس ہے۔۔۔ الخ اس کا مطلب یہ ہے کہ کافر لوگ ریشم پہنتے ہیں، مسلمان نہیں پہنتے بلکہ انہیں آخرت میں بطور اکرام ملے گا۔
جوریشم پہنے، اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کافر ہے کیونکہ ریشم پہننا گناہ ہے، کفر نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس پر مؤاخذہ ہو سکتا ہے اگر اس نے توبہ نہ کی۔ واللہ اعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1561   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1076  
´جمعہ کے لباس کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مسجد کے دروازے کے پاس ایک ریشمی جوڑا بکتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! کاش! آپ اس کو خرید لیں اور جمعہ کے دن اور جس دن آپ کے پاس باہر کے وفود آئیں، اسے پہنا کریں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے تو صرف وہی پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسی قسم کے کچھ جوڑے آئے تو آپ نے ان میں سے ایک جوڑا عمر رضی اللہ عنہ کو دیا تو عمر نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے یہ کپڑا مجھے پہننے کو دیا ہے؟ حالانکہ عطارد کے جوڑے کے سلسلہ میں آپ ایسا ایسا کہہ چکے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں یہ جوڑا اس لیے نہیں دیا ہے کہ اسے تم پہنو، چنانچہ عمر نے اسے اپنے ایک مشرک بھائی کو جو مکہ میں رہتا تھا پہننے کے لیے دے دیا۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1076]
1076۔ اردو حاشیہ:
➊ جمعہ، عید اور خاص مواقع پر عمدہ لباس کا اہتمام مسنون و مستحب ہے۔
➋ ریشمی لباس مردوں کے لئے حرام مگر عورتوں کے لئے مباح ہے جیسے کہ دیگر احادیث سے ثابت ہے۔
➌ کافر رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی اور حسن سلوک اسلامی اخلاق و آداب کا حصہ ہے نیز ان کوتحفہ یا ہدیہ دینا بھی جائز ہے۔ جبکہ دینی قلبی محبت اللہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان ہی کا حق ہے۔
➍ ریشم فی نفسہ جائز اور حلال ہے یہی وجہ ہے کہ عورتوں کے لئے اس کا استعمال بھی درست ہے۔ مردوں کے لئے حرمت کی دلیل مذکورہ حدیث ہے جو صحیحین یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی وارد ہے۔ دیکھیے: [صحيح بخاري۔ حديث: 886، وصحيح مسلم، حديث: 2068]
یہ حدیث قرآن مقدس کی اس آیت کی مخصص ہے۔ جس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: «قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّـهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِه» [الأعراف: 32]
اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم)! کہہ دیجیے جو زینت اور کھانے پینے کی پاکیزہ چیزیں اللہ نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کی ہیں وہ کس نے حرام کی ہیں؟ اس سے معلوم ہوا کہ صحیح حدیث سے عموم قرآن کی تخصیص ہو سکتی ہے۔ «والله أعلم»
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1076   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3591  
´ریشمی کپڑے پہننے کی حرمت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ریشم کا ایک سرخ جوڑا دیکھا تو کہا: اللہ کے رسول! اگر آپ اس جوڑے کو وفود سے ملنے کے لیے اور جمعہ کے دن پہننے کے لیے خرید لیتے تو اچھا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے وہ لوگ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3591]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1) (حله)
ایک طرح کے دو کپڑوں کو کہتے ہیں ایک جسم کے اوپر کے حصے پر پہننے یا اوڑھنے کے لیے دوسرا جسم کے زیریں حصے پر پہننے کے لیے جیسے تہ بند وغیرہ اس لئے اس کا ترجمہ جوڑا کیا گیا ہے۔

(2)
جمعہ اور عید وغیرہ کے موقع پر عمدہ لباس پہننا مستحب ہے اس لئے حضرت عمر ؓ نے مشورہ دیا۔

(3)
مہمانوں کے استقبال کے موقع پر عمدہ لباس پہننا مستحسن ہے۔

(4)
صحابہ کرام ؓ نبی ﷺسے بہت محبت رکھتے تھے اس لئے آپﷺ کے لئے عمدہ چیزیں پسند کرتے تھے۔

(5)
کوئی شخص خلوص اور محبت سے مشورہ دے اور وہ مشورہ درست نہ ہو تو سختی سے رد کرنے کے بجائے اس کی غلطی وضح کر دی جائے تاکہ اسے رنج نہ ہو اور آئندہ اس غلطی سے بچ سکے۔

(6)
آخرت میں حصہ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ لبال کافر پہنتے ہیں جنہیں آخرت میں کوئی بھلائی نصیب نہیں ہوگی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3591