سنن نسائي
كتاب صلاة العيدين -- کتاب: عیدین (عیدالفطر اور عیدالاضحی) کی نماز کے احکام و مسائل
8. بَابُ : الْخُطْبَةِ يَوْمَ الْعِيدِ
باب: عید کے دن خطبہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 1564
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ، قال: حَدَّثَنَا بَهْزٌ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قال: أَخْبَرَنِي زُبَيْدٌ، قال: سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ , يَقُولُ: حَدَّثَنَا الْبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ عِنْدَ سَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ , قَالَ: خَطَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ , فَقَالَ:" إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ بِهِ فِي يَوْمِنَا هَذَا , أَنْ نُصَلِّيَ ثُمَّ نَذْبَحَ فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَا , وَمَنْ ذَبَحَ قَبْلَ ذَلِكَ فَإِنَّمَا هُوَ لَحْمٌ يُقَدِّمُهُ لِأَهْلِهِ" , فَذَبَحَ أَبُو بُرْدَةَ بْنُ دِينَارٍ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , عِنْدِي جَذَعَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُسِنَّةٍ , قَالَ:" اذْبَحْهَا وَلَنْ تُوفِيَ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ".
شعبی (عامر بن شراحیل) کہتے ہیں کہ ہم سے براء بن عازب رضی اللہ عنہم نے مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون کے پاس بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن خطبہ دیا، تو آپ نے فرمایا: اپنے اس دن میں سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ہم نماز پڑھیں، پھر قربانی کریں، تو جس نے ایسا کیا تو اس نے ہماری سنت کو پا لیا، اور جس نے اس سے پہلے ذبح کر لیا تو وہ محض گوشت ہے جسے وہ اپنے گھر والوں کو پہلے پیش کر رہا ہے، ابوبردہ ابن نیار (نماز سے پہلے ہی) ذبح کر چکے تھے، تو انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس ایک سال کا ایک دنبہ ہے، جو دانت والے دنبہ سے بہتر ہے، تو آپ نے فرمایا: اسے ہی ذبح کر لو، لیکن تمہارے بعد اور کسی کے لیے یہ کافی نہیں ہو گا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العیدین 3 (951) مختصراً، 5 (955) مطولاً، 8 (957)، 10 (968)، 17 (976)، 23 (983) مطولاً، الأضاحي 1 (5556)، 8 (5557)، 11 (5560)، 12 (5563)، الأیمان والنذور 15 (6673)، صحیح مسلم/الأضاحي 1 (1961)، سنن ابی داود/الضحایا 5 (2800، 2801) مطولاً، سنن الترمذی/الأضاحي 12 (1508) مطولاً، (تحفة الأشراف: 1769)، مسند احمد 4/28، 287، 297، 302، 303، سنن الدارمی/الأضاحي 7 (2005)، ویأتی عند المؤلف بأرقام: 1571، 1582، 4399، 4400 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1564  
´عید کے دن خطبہ کا بیان۔`
شعبی (عامر بن شراحیل) کہتے ہیں کہ ہم سے براء بن عازب رضی اللہ عنہم نے مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون کے پاس بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن خطبہ دیا، تو آپ نے فرمایا: اپنے اس دن میں سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ہم نماز پڑھیں، پھر قربانی کریں، تو جس نے ایسا کیا تو اس نے ہماری سنت کو پا لیا، اور جس نے اس سے پہلے ذبح کر لیا تو وہ محض گوشت ہے جسے وہ اپنے گھر والوں کو پہلے پیش کر رہا ہے، ابوبردہ ابن نیار (نماز سے پہلے ہی) ذبح کر چکے تھے، تو انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس ایک سال کا ایک دنبہ ہے، جو دانت والے دنبہ سے بہتر ہے، تو آپ نے فرمایا: اسے ہی ذبح کر لو، لیکن تمہارے بعد اور کسی کے لیے یہ کافی نہیں ہو گا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 1564]
1564۔ اردو حاشیہ:
کفایت نہ کرے گا کیونکہ قربانی کے لیے بکرے، گائے اور اونٹ کا دودانتا (جس کے سامنے کے دو دانت گر چکے ہوں) ہونا ضروری ہے۔ حدیث میں مذکورہ جزعہ (بکرا) دو دانتا، یعنی مسنہ نہیں ہوتا بلکہ اس سے کم عمر ہوتا ہے، لہٰذا یہ کفایت نہیں کرے گا۔ بکرے کے جذعے کی رخصت خاص ابوبردہ رضی اللہ عنہ کے لیے تھی جیسا کہ حدیث میں ہے۔ جبکہ دنبے اور چھترے کا جذعہ جائز ہے، کسی فرد سے اس کی تخصیص نہیں۔ بنابریں جس جانور کی قربانی کرنا بعد والوں کے لیے جائز نہیں، خواہ مجبور ہی کیوں نہ ہوں، وہ بکرے کے جذعے کی قربانی ہے۔ احادیث کے مجموعے سے یہی ثابت ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔
➋ حدیث میں جذعہ سے مراد بکرے کا جذع ہے۔ بھیڑ کا جذع عموماً ایک سال کا ہوتا ہے، جمہور کی یہی رائے ہے۔ بعض نے چھ ماہ کے بھیڑ کے بچے کو بھی جذعہ کہا ہے مگر جمہور کی رائے کے مقابلے میں یہ موقف مرجوح ہے۔ واللہ اعلم۔ اس مسئلے کی تفصیل کے لیے اسی کتاب کی کتاب الضحایا کو دیکھیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1564   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1508  
´نماز عید کے بعد قربانی کرنے کا بیان۔`
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن ہمیں خطبہ دیا، آپ نے خطبہ کے دوران فرمایا: جب تک نماز عید ادا نہ کر لے کوئی ہرگز قربانی نہ کرے۔‏‏‏‏ براء کہتے ہیں: میرے ماموں کھڑے ہوئے ۱؎، اور انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ایسا دن ہے جس میں (زیادہ ہونے کی وجہ سے) گوشت قابل نفرت ہو جاتا ہے، اس لیے میں نے اپنی قربانی جلد کر دی تاکہ اپنے بال بچوں اور گھر والوں یا پڑوسیوں کو کھلا سکوں؟ آپ نے فرمایا: پھر دوسری قربانی کرو، انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس دودھ پیتی پٹھیا ہے اور گوشت والی ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الأضاحى/حدیث: 1508]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ان کا نام ابوبردہ بن نیار تھا۔

2؎:
یعنی یہ حکم تمہارے لیے خاص ہے کیوں کہ تمہارے لیے اس وقت مجبوری ہے ورنہ قربانی میں مسنہ (دانتایعنی دودانت والا) ہی جائز ہے،
بکری کا جذعہ وہ ہے جو سال پورا کرکے دوسرے سال میں قدم رکھ چکا ہواس کی بھی قربانی صرف ابوبردہ کے لیے جائز کی گئی تھی،
اس حدیث سے معلوم ہواکہ قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کا صحیح وقت صلاۃ عید کے بعد ہے،
اگر کسی نے صلاۃ عید کی ادائیگی سے پہلے ہی جانور ذبح کردیا تو اس کی قربانی نہیں ہوئی،
اسے دوبارہ قربانی کرنی چاہیے۔

3؎:
بھیڑ کے جذعہ (چھ ماہ) کی قربانی عام مسلمانوں کے لیے دانتا میسر نہ ہونے کی صورت میں جائز ہے،
جب کہ بکری کے جذعہ (ایک سالہ) کی قربانی صرف ابوبردہ رضی اللہ عنہ کے لیے جائز کی گئی تھی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1508   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2801  
´کس عمر کے جانور کی قربانی جائز ہے؟`
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے ابوبردہ نامی ایک ماموں نے نماز سے پہلے قربانی کر لی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: یہ تمہاری بکری گوشت کی بکری ہوئی، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس بکریوں میں سے ایک پلی ہوئی جذعہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسی کو ذبح کر ڈالو، لیکن تمہارے سوا اور کسی کے لیے ایسا کرنا درست نہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الضحايا /حدیث: 2801]
فوائد ومسائل:
مذکورہ بالا احادیث 2798 اور 2799 کو اسی پر محمول کرنا راحج ہے۔
کہ بھیڑ کا ایک سالہ جانور جو دو دانتا نہ ہو جائزہے۔
مگر بکری کی قسم سے جائز نہیں۔
جیسا کہ تفصیل میں گزر چکا ہے۔
دیکھئے (فوائد ومسائل حدیث 2797)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2801