صحيح البخاري
كِتَاب الْمُزَارَعَةِ -- کتاب: کھیتی باڑی اور بٹائی کا بیان
18. بَابُ مَا كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوَاسِي بَعْضُهُمْ بَعْضًا فِي الزِّرَاعَةِ وَالثَّمَرَةِ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کھیتی باڑی میں ایک دوسرے کی مدد کس طرح کرتے تھے۔
حدیث نمبر: 2339
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ أَبِي النَّجَاشِيِّ مَوْلَى رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، سَمِعْتُ رَافِعَ بْنَ خَدِيجِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ عَمِّهِ ظُهَيْرِ بْنِ رَافِعٍ، قَالَ ظُهَيْرٌ:" لَقَدْ نَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَمْرٍ كَانَ بِنَا رَافِقًا، قُلْتُ: مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهُوَ حَقٌّ، قَالَ: دَعَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَا تَصْنَعُونَ بِمَحَاقِلِكُمْ؟ قُلْتُ: نُؤَاجِرُهَا عَلَى الرُّبُعِ، وَعَلَى الْأَوْسُقِ مِنَ التَّمْرِ وَالشَّعِيرِ، قَالَ: لَا تَفْعَلُوا، ازْرَعُوهَا أَوْ أَزْرِعُوهَا أَوْ أَمْسِكُوهَا". قَالَ رَافِعٌ: قُلْتُ: سَمْعًا وَطَاعَةً.
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں امام اوزاعی نے خبر دی، انہیں رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کے غلام ابونجاشی نے، انہوں نے رافع بن خدیج بن رافع رضی اللہ عنہ سے سنا، اور انہوں نے اپنے چچا ظہیر بن رافع رضی اللہ عنہ سے، ظہیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک ایسے کام سے منع کیا تھا جس میں ہمارا (بظاہر ذاتی) فائدہ تھا۔ اس پر میں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ بھی فرمایا وہ حق ہے۔ ظہیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا اور دریافت فرمایا کہ تم لوگ اپنے کھیتوں کا معاملہ کس طرح کرتے ہو؟ میں نے کہا کہ ہم اپنے کھیتوں کو (بونے کے لیے) نہر کے قریب کی زمین کی شرط پر دے دیتے ہیں۔ اسی طرح کھجور اور جَو کے چند وسق پر۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو۔ یا خود اس میں کھیتی کیا کرو یا دوسروں سے کراؤ۔ ورنہ اسے یوں خالی ہی چھوڑ دو۔ رافع رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے کہا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان) میں نے سنا اور مان لیا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2465  
´غلہ کے بدلے زمین کرایہ پر دینے کا بیان۔`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں محاقلہ کیا کرتے تھے، پھر ان کا خیال ہے کہ ان کے چچاؤں میں سے کوئی آیا اور کہنے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جس کے پاس زمین ہو وہ اس کو متعین غلے کے بدلے کرائے پر نہ دے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2465]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:
یہ اس وقت کی بات ہے جب تہائی چوتھائی یا غلے کی مقرر مقدار کےعوض زمین کرائے پردینے کی صرف ایک ہی صورت مروج تھی جس میں پانی کی نالیوں کےکنارے اورآبی گزر گاہوں وغیرہ کےقریب واقع زمین کےٹکڑے کی پیداوار مالک کےلیے مختص تھی۔
حدیث میں مذکور اسی صورت کوممنوع قرار دیا گیا ہے۔
واللہ اعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2465   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1384  
´مزارعت ہی سے متعلق ایک اور باب۔`
رافع بن خدیج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک ایسے کام سے منع فرما دیا جو ہمارے لیے مفید تھا، وہ یہ کہ جب ہم میں سے کسی کے پاس زمین ہوتی تو وہ اس کو (زراعت کے لیے) کچھ پیداوار یا روپیوں کے عوض دے دیتا۔ آپ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کے پاس زمین ہو تو وہ اپنے بھائی کو (مفت) دیدے۔ یا خود زراعت کرے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1384]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
دیکھئے پچھلی حدیث اور اس کا حاشہ۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1384   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3395  
´بٹائی کی ممانعت کا بیان۔`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں (بٹائی پر) کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے تو (ایک بار) میرے ایک چچا آئے اور کہنے لگے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کام سے منع فرما دیا ہے جس میں ہمارا فائدہ تھا، لیکن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہمارے لیے مناسب اور زیادہ نفع بخش ہے، ہم نے کہا: وہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جس کے پاس زمین ہو تو چاہیئے کہ وہ خود کاشت کرے، یا (اگر خود کاشت نہ کر سکتا ہو تو) اپنے کسی بھائی کو کاشت کروا دے اور اسے تہائی یا چوتھائی یا کسی معی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3395]
فوائد ومسائل:
تہائی چوتھائی یا متعین غلے پر کرائے کی ایک ہی صورت مروج تھی۔
جس میں آبی گزرگاہوں نالیوں وغیرہ کی پیداوار مالک کےلئے مختص تھی، اس صورت کو ممنوع قرار دیا گیا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3395   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2339  
2339. حضرت رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: میرے چچا ظہیر بن رافع ؓ نے بیان کیاکہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایسے کام سے منع فرمادیا جو ہمارے لیے بہت نفع بخش تھا۔ میں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے جو فرمایا وہ حق ہے۔ حضرت ظہیر ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے بلا کر پوچھا: تم لوگ اپنے کھیتوں کا کیاکرتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ ہم ان کو نالی کے کنارے کی پیداوار نیز کھجور اور جو کے چند وسق کے عوض کرائے پر دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ایسا مت کرو۔ تم خود کاشت کرویا کسی کو کاشت کے لیے دے دو یا اسے اپنے پاس ہی رہنے دو۔ حضرت رافع ؓ کہتے ہیں: میں نے کہا: جو ارشاد ہوا اسے ہم نے سنا اور دل سے مان لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2339]
حدیث حاشیہ:
بعض روایتوں میں لفظ ''علی الربع'' کی جگہ علی الربیع آیا ہے۔
اربعاء اسی کی جمع ہے۔
ربیع نالی کو کہتے ہیں اور بعض روایتوں میں علی الربع ہے۔
جیسا کہ یہاں مذکور ہے۔
یعنی چوتھائی پیداوار پر، لیکن حافظ نے کہا صحیح ''علی الربيع'' ہے اور مطلب یہ ہے کہ وہ زمین کا کرایہ یہ ٹھہراتے کہ نالیوں پر جو پیداوار ہو وہ تو زمین والا لے گا اور باقی پیداوار محنت کرنے والے کی ہوگی۔
اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو۔
یا تو خود کھیتی کرو، یا کراؤ یا اسے خالی پڑا رہنے دو۔
یا کاشت کے لیے اپنے کسی مسلمان بھائی کو بخش دو۔
زمین کا کوئی خاص قطعہ کھیت والا اپنے لیے مخصوص کر لے ایسا کرنے سے منع فرمایا کیوں کہ اس میں کاشتکار کے لیے نقصان کا احتمال ہے۔
بلکہ ایک طرح سے کھیت والے کے لیے بھی، کیوں کہ ممکن ہے اس خاص ٹکڑے سے دوسرے ٹکڑوں میں پیداوار بہتر ہو۔
پس نصف یا تہائی چوتھائی بٹائی پر اجازت دی گئی اور یہی طریقہ آج تک ہر جگہ مروج ہے۔
بصورت نقد روپیہ وغیرہ محصول لے کر زمین کاشتکار کو دے دینا، یہ طریقہ بھی اسلام نے جائز رکھا۔
آگے آنے والی احادیث میں یہ جملہ تفصیلات مذکور ہو رہی ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2339   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2339  
2339. حضرت رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: میرے چچا ظہیر بن رافع ؓ نے بیان کیاکہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایسے کام سے منع فرمادیا جو ہمارے لیے بہت نفع بخش تھا۔ میں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے جو فرمایا وہ حق ہے۔ حضرت ظہیر ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے بلا کر پوچھا: تم لوگ اپنے کھیتوں کا کیاکرتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ ہم ان کو نالی کے کنارے کی پیداوار نیز کھجور اور جو کے چند وسق کے عوض کرائے پر دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ایسا مت کرو۔ تم خود کاشت کرویا کسی کو کاشت کے لیے دے دو یا اسے اپنے پاس ہی رہنے دو۔ حضرت رافع ؓ کہتے ہیں: میں نے کہا: جو ارشاد ہوا اسے ہم نے سنا اور دل سے مان لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2339]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے ذکر کردہ روایات کے معنی کا تعین کیا ہے کہ جن روایات میں مزارعت کی نہی بیان ہوئی ہے وہ زہد کی تعلیم کے لیے ہے تاکہ لوگوں میں ہمدردی اور ایثار کے جذبات پیدا ہوں، اس سے نہی تحریم مراد نہیں۔
(2)
اگر سوال پیدا ہو کہ زمین کاشت کیے بغیر چھوڑ دینا مال کو ضائع کرنا ہے تو اس کا جواب بایں طور دیا گیا ہے کہ اس سے زمین کی منفعت معطل نہیں ہوتی کیونکہ گھاس وغیرہ خوب اُگے گی اس سے جانوروں کے لیے چارے کا انتظام وافر مقدار میں ہو گا، نیز لکڑی وغیرہ بھی حاصل کی جا سکتی ہے اور کچھ نہیں تو زمین کی نمو و قوت میں اضافہ ہو گا تاکہ آئندہ سال زیادہ فصل پیدا ہو۔
بہرحال ممانعت کی مخصوص صورتیں ہیں، جن کی وضاحت پہلے ہو چکی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2339