سنن نسائي
كتاب صلاة العيدين -- کتاب: عیدین (عیدالفطر اور عیدالاضحی) کی نماز کے احکام و مسائل
23. بَابُ : حَثُّ الإِمَامِ عَلَى الصَّدَقَةِ فِي الْخُطْبَةِ
باب: عیدین کے خطبے میں امام لوگوں کو صدقہ کرنے پر ابھارے۔
حدیث نمبر: 1581
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قال: حَدَّثَنَا يَزِيدُ وَهُوَ ابْنُ هَارُونَ , قال: أَنْبَأَنَا حُمَيْدٌ، عَنِ الْحَسَنِ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ خَطَبَ بِالْبَصْرَةِ , فَقَالَ" أَدُّوا زَكَاةَ صَوْمِكُمْ , فَجَعَلَ النَّاسُ يَنْظُرُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ , فَقَالَ: مَنْ هَاهُنَا مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ , قُومُوا إِلَى إِخْوَانِكُمْ فَعَلِّمُوهُمْ , فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَضَ صَدَقَةَ الْفِطْرِ عَلَى الصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ , وَالْحُرِّ وَالْعَبْدِ , وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى نِصْفَ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ شَعِيرٍ".
حسن بصری سے روایت ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہم نے بصرہ میں خطبہ دیا تو کہا: تم لوگ اپنے روزوں کی زکاۃ ادا کرو، تو (یہ سن کر) لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے، تو انہوں نے کہا: یہاں مدینہ والے کون کون ہیں، تم اپنے بھائیوں کے پاس جاؤ، اور انہیں سکھاؤ کیونکہ یہ لوگ نہیں جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۃ الفطر آدھا صاع گیہوں یا ایک صاع کھجور یا جو، چھوٹے، بڑے، آزاد، غلام، مرد، عورت سب پر فرض کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الزکاة 20 (1622) مطولاً، (تحفة الأشراف: 5394)، مسند احمد 1/228، 351، ویأتی عند المؤلف برقم: 2510، 2517 (صحیح) (سند میں حسن بصری کا سماع ابن عباس رضی اللہ عنہم سے نہیں ہے، اس لیے صرف حدیث کا مرفوع حصہ دوسرے طرق سے تقویت پاکر صحیح ہے)»

قال الشيخ الألباني: صحيح المرفوع منه
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1581  
´عیدین کے خطبے میں امام لوگوں کو صدقہ کرنے پر ابھارے۔`
حسن بصری سے روایت ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہم نے بصرہ میں خطبہ دیا تو کہا: تم لوگ اپنے روزوں کی زکاۃ ادا کرو، تو (یہ سن کر) لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے، تو انہوں نے کہا: یہاں مدینہ والے کون کون ہیں، تم اپنے بھائیوں کے پاس جاؤ، اور انہیں سکھاؤ کیونکہ یہ لوگ نہیں جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۃ الفطر آدھا صاع گیہوں یا ایک صاع کھجور یا جو، چھوٹے، بڑے، آزاد، غلام، مرد، عورت سب پر فرض کیا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 1581]
1581۔ اردو حاشیہ: مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے کیونکہ حسن بصری رحمہ اللہ کا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سماع ثابت نہیں ہے، تاہم روایت میں بیان کردہ مسئلہ صدقۃ الفطر دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ غالباً اسی وجہ سے محققین نے روایت کے پہلے حصے «ان ابن عباس خطب بالبصرۃ۔۔۔۔ فانھم لایعلمون» کو ضعیف قرار دیا ہے اور دوسرے حصے «ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرض۔۔۔ من تعر او شعیر» کو دیگر شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ضعیف سنن ابی داود (مفصل) للالبانی: 2؍121۔ 123، رقم: 288، ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائی: 22؍280۔ 286) بنابریں یہی موقف دلائل کی رو سے صحیح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر چھوٹے، بڑے، آزاد، غلام اور مذکرو مؤنث پر نصف صاع گندم یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو صدقۃ الفطر معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک صاع کی بجائے آدھا صاع گندم بھی فطرانے میں دے دیتا ہے تو ان شاءاللہ یہ بھی جائز ہو گا۔ اسے صرف کسی صحابی کی رائے اور اجتہاد قرار دینا محل نظر ہے کیونکہ یہ مرفوعاً بھی ثابت ہے، البتہ پورا صاع دینا افضل اور اولیٰ ہے جیسا کہ عمومی احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔ مزید تفصیل کے لیے سنن نسائی کی کتاب الزکاۃ، باب مکیلۃ زکاۃ الفطر دیکھیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1581   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1622  
´گیہوں میں آدھا صاع صدقہ فطر دینے کے قائلین کی دلیل کا بیان۔`
حسن کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے رمضان کے اخیر میں بصرہ کے منبر پر خطبہ دیا اور کہا: اپنے روزے کا صدقہ نکالو، لوگ نہیں سمجھ سکے تو انہوں نے کہا: اہل مدینہ میں سے کون کون لوگ یہاں موجود ہیں؟ اٹھو اور اپنے بھائیوں کو سمجھاؤ، اس لیے کہ وہ نہیں جانتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ صدقہ فرض کیا کھجور یا جَو سے ایک صاع، اور گیہوں سے آدھا صاع ہر آزاد اور غلام، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے پر، پھر جب علی رضی اللہ عنہ آئے تو انہوں نے ارزانی دیکھی اور کہنے لگے: اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے کشادگی کر دی ہے، اب اسے ہر شے میں سے ایک صاع کر لو ۱؎ تو بہتر ہے۔‏‏‏‏ حمید کہتے ہیں: حسن کا خیال تھا کہ صدقہ فطر اس شخص پر ہے جس نے رمضان کے روزے رکھے ہوں۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1622]
1622. اردو حاشیہ: مذکور مختلف آثار گندم کی تخصیص کو ثابت کرتے ہیں۔مگر حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحیح روایت میں صراحت ہے کہ یہ سب نبی ﷺ کے بعد ہی ہوا ہے۔(نیل الاوطار 206/4)اور علمائے اہل حدیث کی ترجیح یہی ہے۔کہ گندم کا بھی ایک ہی صاع دینا چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1622