سنن نسائي
كتاب قيام الليل وتطوع النهار -- کتاب: تہجد (قیام اللیل) اور دن میں نفل نمازوں کے احکام و مسائل
1. بَابُ : الْحَثِّ عَلَى الصَّلاَةِ فِي الْبُيُوتِ وَالْفَضْلِ فِي ذَلِكَ
باب: گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب اور اس کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1600
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قال: حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، قال: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، قال: سَمِعْتُ مُوسَى بْنَ عُقْبَةَ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا النَّضْرِ يُحَدِّثُ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , اتَّخَذَ حُجْرَةً فِي الْمَسْجِدِ مِنْ حَصِيرٍ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا لَيَالِيَ حَتَّى اجْتَمَعَ إِلَيْهِ النَّاسُ , ثُمَّ فَقَدُوا صَوْتَهُ لَيْلَةً فَظَنُّوا أَنَّهُ نَائِمٌ , فَجَعَلَ بَعْضُهُمْ يَتَنَحْنَحُ لِيَخْرُجَ إِلَيْهِمْ , فَقَالَ:" مَا زَالَ بِكُمُ الَّذِي رَأَيْتُ مِنْ صُنْعِكُمْ حَتَّى خَشِيتُ أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْكُمْ , وَلَوْ كُتِبَ عَلَيْكُمْ مَا قُمْتُمْ بِهِ فَصَلُّوا أَيُّهَا النَّاسُ فِي بُيُوتِكُمْ , فَإِنَّ أَفْضَلَ صَلَاةِ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ".
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں چٹائی سے گھیر کر ایک کمرہ بنایا، تو آپ نے اس میں کئی راتیں نمازیں پڑھیں یہاں تک کہ لوگ آپ کے پاس جمع ہونے لگے، پھر ان لوگوں نے ایک رات آپ کی آواز نہیں سنی، وہ سمجھے کہ آپ سو گئے ہیں، تو ان میں سے کچھ لوگ کھکھارنے لگے، تاکہ آپ ان کی طرف نکلیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں اس کام میں برابر لگا دیکھا تو ڈرا کہ کہیں وہ تم پر فرض نہ کر دی جائے، اور اگر وہ تم پر فرض کر دی گئی تو تم اسے ادا نہیں کر سکو گے، تو لوگو! تم اپنے گھروں میں نمازیں پڑھا کرو، کیونکہ آدمی کی سب سے افضل (بہترین) نماز وہ ہے جو اس کے گھر میں ہو سوائے فرض نماز کے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 81 (731)، الأدب 75 (6113)، الإعتصام 3 (7290)، صحیح مسلم/المسافرین 29 (781)، سنن ابی داود/الصلاة 205 (1044)، 346 (1447)، سنن الترمذی/الصلاة 214 (450)، (تحفة الأشراف: 3698)، موطا امام مالک/الجماعة 1 (4)، مسند احمد 5/182، 183، 186، 187، سنن الدارمی/الصلاة 96 (1406) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یہ حکم تمام نفلی نمازوں کو شامل ہے، البتہ اس حکم سے وہ نمازوں مستثنیٰ ہیں جو شعائر اسلام میں شمار کی جاتی ہیں مثلاً عیدین، استسقاء اور کسوف و خسوف (چاند اور سورج گرہن) کی نمازوں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1600  
´گھروں میں نماز پڑھنے کی ترغیب اور اس کی فضیلت کا بیان۔`
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں چٹائی سے گھیر کر ایک کمرہ بنایا، تو آپ نے اس میں کئی راتیں نمازیں پڑھیں یہاں تک کہ لوگ آپ کے پاس جمع ہونے لگے، پھر ان لوگوں نے ایک رات آپ کی آواز نہیں سنی، وہ سمجھے کہ آپ سو گئے ہیں، تو ان میں سے کچھ لوگ کھکھارنے لگے، تاکہ آپ ان کی طرف نکلیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں اس کام میں برابر لگا دیکھا تو ڈرا کہ کہیں وہ تم پر فرض نہ کر دی جائے، اور اگر وہ تم پر فرض کر دی گئی تو تم اسے ادا نہیں کر سکو گے، تو لوگو! تم اپنے گھروں میں نمازیں پڑھا کرو، کیونکہ آدمی کی سب سے افضل (بہترین) نماز وہ ہے جو اس کے گھر میں ہو سوائے فرض نماز کے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1600]
1600۔ اردو حاشیہ:
➊ دوسری روایات میں صراحت ہے کہ یہ رمضان المبارک کی بات ہے اور یہاں رات کی نماز سے مراد تراویح ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ سا بنانے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ معتکف ہوں گے ورنہ آپ رات کی نماز گھر میں پڑھا کرتے تھے۔ یا ممکن ہے کہ گھر میں کسی وجہ سے تنگی ہو اور آپ نے علیحدگی میں نماز پڑھنے کے لیے چٹائی کھڑی کی ہو۔
فرض نہ کر دی جائے رمضان المبارک میں تراویح کا فرض ہوجانا پانچ نمازوں میں اضافے کے مترادف نہیں کہ اعتراض پیدا ہوکہ (لا یبدل القول لذی) کے الفاظ (جواللہ تعالیٰ نے لیلۃ الاسراء میں پانچ نماز کی فرضیت کے وقت فرمائے تھے) کے بعد تو فرضیت کا خطرہ نہیں تھا کیونکہ اس قول میں صرف روزانہ کی پانچ نمازوں میں اضافہ یا کمی کی نفی کی گئی ہے اور تراویح کی، بالفرض، فرضیت سے یومیہ نمازوں میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد فرضیت کا خطرہ ناپید ہو گیا، لہٰذا نماز تراویح کو مسجد میں مستقل باجماعت جاری کر دیا گیا جو خلفائے راشدین کے دور سے لے کر اب تک بلانزاع امت میں جاری و ساری ہے اور اجماعی مسئلہ ہے اور سنت المسلمین بن چکا ہے۔ اب کسی مسجد کو اس سعادت سے محروم نہیں رکھا جائے گا، البتہ اگر کوئی شخص انفرادی طور پر گھر میں ادا کرنا چاہے تو بھی جائز ہے مگر ضروری ہے کہ وہ نماز تراویح میں قرآن مجید زیادہ پڑھنے کے قابل ہوتاکہ اصل مقصد پورا ہو، نہ کہ صرف رکعات کی گنتی پوری کرے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1600   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1044  
´آدمی کے اپنے گھر میں نفل پڑھنے کا بیان۔`
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کی نماز اس کے اپنے گھر میں اس کی میری اس مسجد میں نماز سے افضل ہے سوائے فرض نماز کے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 1044]
1044۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ ارشاد مردوں کو ہے عورتوں کو نہیں کیونکہ ان کے لئے فرض نماز بھی گھر میں پڑھنا زیادہ افضل ہے۔ اگرچہ جماعت میں آنے کی اجازت ہے۔
➋ بیت الحرام اور بیت المقدس بھی مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر قیاس ہیں۔
➌ ان نوافل سے مراد ایسے نوافل ہیں۔ جو مسجد سے مخصوص نہیں، مثلاً تحیۃ المسجد اور جمعہ سے پہلے کے نوافل وغیرہ۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1044   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 322  
´نماز باجماعت اور امامت کے مسائل کا بیان`
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھاس پھوس سے بنی ہوئی چٹائی سے ایک چھوٹا (خیمہ نما) حجرہ بنایا اور اس میں نماز پڑھنے لگے۔ لوگوں کو جب معلوم ہوا تو وہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے لگے۔ اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ مرد کی اپنے گھر میں نماز افضل ہے سوائے فرض نماز کے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 322»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأذان، باب صلاة الليل، حديث:731، ومسلم، صلاة المسافرين، باب استحباب صلاة النافلة في بيته، حديث:781.»
تشریح:
1. یہ ماہ رمضان کا موقع تھا کہ آپ نے اپنے لیے مسجد میں الگ ایک مختصر سی مخصوص جگہ بنالی۔
2. یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اگر ایسا کرنا مقتدیوں اور نمازیوں کے لیے باعث ضرر اور تکلیف نہ ہو تو مسجد میں مخصوص جگہ بنائی جا سکتی ہے۔
3.مکمل روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رات کی نماز پڑھتے تھے۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو علم ہوا تو انھوں نے آپ کے پیچھے نماز پڑھنا شروع کر دی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات دیر سے اس حجرے سے باہر نکلے اور فرمایا: میں نے تمھارا حال دیکھ لیا ہے‘ اپنے گھروں میں نماز پڑھو کیونکہ فرض نماز کے علاوہ مردوں کی نماز گھر میں افضل ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 322