سنن نسائي
كتاب قيام الليل وتطوع النهار -- کتاب: تہجد (قیام اللیل) اور دن میں نفل نمازوں کے احکام و مسائل
2. بَابُ : قِيَامِ اللَّيْلِ
باب: قیام اللیل (تہجد) کا بیان۔
حدیث نمبر: 1602
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، أَنَّهُ لَقِيَ ابْنَ عَبَّاسٍ فَسَأَلَهُ عَنِ الْوَتْرِ , فَقَالَ:" أَلَا أُنَبِّئُكَ بِأَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ بِوَتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: نَعَمْ , قَالَ: عَائِشَةُ، ائْتِهَا فَسَلْهَا ثُمَّ ارْجِعْ إِلَيَّ فَأَخْبِرْنِي بِرَدِّهَا عَلَيْكَ، فَأَتَيْتُ عَلَى حَكِيمِ بْنِ أَفْلَحَ فَاسْتَلْحَقْتُهُ إِلَيْهَا , فَقَالَ: مَا أَنَا بِقَارِبِهَا إِنِّي نَهَيْتُهَا أَنْ تَقُولَ فِي هَاتَيْنِ الشِّيعَتَيْنِ شَيْئًا فَأَبَتْ فِيهَا إِلَّا مُضِيًّا، فَأَقْسَمْتُ عَلَيْهِ فَجَاءَ مَعِي فَدَخَلَ عَلَيْهَا , فَقَالَتْ لِحَكِيمٍ: مَنْ هَذَا مَعَكَ؟ قُلْتُ: سَعْدُ بْنُ هِشَامٍ , قَالَتْ: مَنْ هِشَامٌ؟ قُلْتُ: ابْنُ عَامِرٍ فَتَرَحَّمَتْ عَلَيْهِ , وَقَالَتْ: نِعْمَ الْمَرْءُ كَانَ عَامِرًا , قَالَ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ , أَنْبِئِينِي عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَتْ: أَلَيْسَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ , قَالَ: قُلْتُ: بَلَى , قَالَتْ:" فَإِنَّ خُلُقَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقُرْآنُ". (حديث موقوف) (حديث مرفوع) فَهَمَمْتُ أَنْ أَقُومَ فَبَدَا لِي قِيَامُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ , أَنْبِئِينِي عَنْ قِيَامِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَتْ: أَلَيْسَ تَقْرَأُ هَذِهِ السُّورَةَ يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ؟ قُلْتُ: بَلَى , قَالَتْ: فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ افْتَرَضَ قِيَامَ اللَّيْلِ فِي أَوَّلِ هَذِهِ السُّورَةِ، فَقَامَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ حَوْلًا حَتَّى انْتَفَخَتْ أَقْدَامُهُمْ , وَأَمْسَكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ خَاتِمَتَهَا اثْنَيْ عَشَرَ شَهْرًا، ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ التَّخْفِيفَ فِي آخِرِ هَذِهِ السُّورَةِ , فَصَارَ قِيَامُ اللَّيْلِ تَطَوُّعًا بَعْدَ أَنْ كَانَ فَرِيضَةً. (حديث موقوف) (حديث مرفوع) فَهَمَمْتُ أَنْ أَقُومَ فَبَدَا لِي وَتْرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ , أَنْبِئِينِي عَنْ وَتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَتْ: كُنَّا نُعِدُّ لَهُ سِوَاكَهُ وَطَهُورَهُ فَيَبْعَثُهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِمَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَهُ مِنَ اللَّيْلِ , فَيَتَسَوَّكُ وَيَتَوَضَّأُ وَيُصَلِّي ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ لَا يَجْلِسُ فِيهِنَّ إِلَّا عِنْدَ الثَّامِنَةِ، يَجْلِسُ فَيَذْكُرُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَيَدْعُو ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمًا يُسْمِعُنَا، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ بَعْدَ مَا يُسَلِّمُ ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَةً فَتِلْكَ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يَا بُنَيَّ، فَلَمَّا أَسَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخَذَ اللَّحْمَ أَوْتَرَ بِسَبْعٍ وَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ بَعْدَ مَا سَلَّمَ فَتِلْكَ تِسْعُ رَكَعَاتٍ يَا بُنَيَّ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى صَلَاةً أَحَبَّ أَنْ يَدُومَ عَلَيْهَا، وَكَانَ إِذَا شَغَلَهُ عَنْ قِيَامِ اللَّيْلِ نَوْمٌ أَوْ مَرَضٌ أَوْ وَجَعٌ صَلَّى مِنَ النَّهَارِ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً، وَلَا أَعْلَمُ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ الْقُرْآنَ كُلَّهُ فِي لَيْلَةٍ , وَلَا قَامَ لَيْلَةً كَامِلَةً حَتَّى الصَّبَاحَ , وَلَا صَامَ شَهْرًا كَامِلًا غَيْرَ رَمَضَانَ، فَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَحَدَّثْتُهُ بِحَدِيثِهَا , فَقَالَ: صَدَقَتْ , أَمَا إِنِّي لَوْ كُنْتُ أَدْخُلُ عَلَيْهَا لَأَتَيْتُهَا حَتَّى تُشَافِهَنِي مُشَافَهَةً , قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: كَذَا وَقَعَ فِي كِتَابِي وَلَا أَدْرِي مِمَّنِ الْخَطَأُ فِي مَوْضِعِ وَتْرِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ.
سعد بن ہشام سے روایت ہے کہ وہ ابن عباس رضی اللہ عنہم سے ملے تو ان سے وتر کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا: کیا میں تمہیں اہل زمین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وتر کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے والے کے بارے میں نہ بتاؤں؟ سعد نے کہا: کیوں نہیں (ضرور بتائیے) تو انہوں نے کہا: وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں، ان کے پاس جاؤ، اور ان سے سوال کرو، پھر میرے پاس لوٹ کر آؤ، اور وہ تمہیں جو جواب دیں اسے مجھے بتاؤ، چنانچہ میں حکیم بن افلح کے پاس آیا، اور ان سے میں نے اپنے ساتھ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس لے چلنے کے لیے کہا، تو انہوں نے انکار کیا، اور کہنے لگے: میں ان سے نہیں مل سکتا، میں نے انہیں ان دو گروہوں ۱؎ کے متعلق کچھ بولنے سے منع کیا تھا، مگر وہ بولے بغیر نہ رہیں، تو میں نے حکیم بن افلح کو قسم دلائی، تو وہ میرے ساتھ آئے، چنانچہ وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہوئے، تو انہوں نے حکیم سے کہا: تمہارے ساتھ یہ کون ہیں؟ میں نے کہا: سعد بن ہشام ہیں، تو انہوں نے کہا: کون ہشام؟ میں نے کہا: عامر کے لڑکے، تو انہوں نے ان (عامر) کے لیے رحم کی دعا کی، اور کہا: عامر کتنے اچھے آدمی تھے۔ سعد نے کہا: ام المؤمنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں بتائیے تو انہوں نے کہا: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور پڑھتا ہوں، تو انہوں نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق سراپا قرآن تھے، پھر میں نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام اللیل کے متعلق پوچھنے کا خیال آیا، تو میں نے کہا: ام المؤمنین! مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام اللیل کے متعلق بتائیے، انہوں نے کہا: کیا تم سورۃ «يا أيها المزمل‏» نہیں پڑھتے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور پڑھتا ہوں، تو انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کے شروع میں قیام اللیل کو فرض قرار دیا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے ایک سال تک قیام کیا یہاں تک کہ ان کے قدم سوج گئے، اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کی آخر کی آیتوں کو بارہ مہینے تک روکے رکھا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کے آخر میں تخفیف نازل فرمائی، اور رات کا قیام اس کے بعد کہ وہ فرض تھا نفل ہو گیا، میں نے پھر اٹھنے کا ارادہ کیا، تو میرے دل میں یہ بات آئی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وتر کے متعلق بھی پوچھ لوں، تو میں نے کہا: ام المؤمنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وتر کے بارے میں بھی بتائیے تو انہوں نے کہا: ہم آپ کے لیے مسواک اور وضو کا پانی رکھ دیتے، تو اللہ تعالیٰ رات میں آپ کو جب اٹھانا چاہتا اٹھا دیتا تو آپ مسواک کرتے، اور وضو کرتے، اور آٹھ رکعتیں پڑھتے ۲؎ جن میں آپ صرف آٹھویں رکعت میں بیٹھتے، ذکر الٰہی کرتے، دعا کرتے، پھر سلام پھیرتے جو ہمیں سنائی دیتا، پھر سلام پھیرنے کے بعد آپ بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے، پھر ایک رکعت پڑھتے تو اس طرح کل گیارہ رکعتیں ہوئیں۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بوڑھے ہو گئے، اور جسم پر گوشت چڑھ گیا تو وتر کی سات رکعتیں پڑھنے لگے، اور سلام پھیرنے کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے، تو میرے بیٹے! اس طرح کل نو رکعتیں ہوئیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نماز پڑھتے تو آپ کو یہ پسند ہوتا کہ اس پر مداومت کریں، اور جب آپ نیند، بیماری یا کسی تکلیف کی وجہ سے رات کا قیام نہیں کر پاتے تو آپ (اس کے بدلہ میں) دن میں بارہ رکعتیں پڑھتے تھے، اور میں نہیں جانتی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا قرآن ایک رات میں پڑھا ہو، اور نہ ہی آپ پوری رات صبح تک قیام ہی کرتے، اور نہ ہی کسی مہینے کے پورے روزے رکھتے، سوائے رمضان کے، پھر میں ابن عباس رضی اللہ عنہم کے پاس آیا، اور میں نے ان سے ان کی یہ حدیث بیان کی، تو انہوں نے کہا: عائشہ رضی اللہ عنہا نے سچ کہا، رہا میں تو اگر میں ان کے یہاں جاتا ہوتا تو میں ان کے پاس ضرور جاتا یہاں تک کہ وہ مجھ سے براہ راست بالمشافہ یہ حدیث بیان کرتیں۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: اسی طرح میری کتاب میں ہے، اور میں نہیں جانتا کہ کس شخص سے آپ کی وتر کی جگہ کے بارے میں غلطی ہوئی ہے ۳؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 18 (746)، سنن ابی داود/الصلاة 316 (1342، 1343، 1344، 1345)، (تحفة الأشراف: 16104)، مسند احمد 6/53، 94، 109، 163، 168، 236، 258، سنن الدارمی/الصلاة 165 (1516) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی معاویہ اور علی رضی اللہ عنہم کے درمیان میں۔ ۲؎: کسی راوی سے وہم ہو گیا ہے، صحیح نو رکعتیں ہے، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے، آٹھ رکعتیں لگاتار پڑھتے، اور آٹھویں رکعت پر بیٹھ کر نویں رکعت کے لیے اٹھتے۔ ۳؎: وتر کی جگہ میں غلطی اس طرح ہوئی ہے کہ اس حدیث میں بیٹھ کر پڑھی جانے والی دونوں رکعتوں کو اس وتر کی رکعت پر مقدم کر دیا گیا جسے آپ آٹھویں کے بعد پڑھتے تھے، صحیح یہ ہے کہ آپ ان دونوں رکعتوں کو بیٹھ کر وتر کے بعد پڑھتے تھے جیسا کہ مسلم کی روایت میں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 160  
´ایک رکعت وتر کا جواز`
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي بالليل إحدى عشرة ركعة يوتر منها بواحدة. فإذا فرغ منها اضطجع على شقه الايمن . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو گیارہ رکعات نماز پڑھتے تھے۔ ان میں سے ایک وتر (آخر میں) پڑھتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے فارغ ہوتے تو دائیں کروٹ لیٹ جاتے تھے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 160]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه مسلم 736، من حديث ما لك به .]

تفقه:
➊ رات کی نماز گیارہ رکعات اس طرح پڑھنی چاہئے کہ ہر دو رکعتوں پر سلام پھیر دیا جائے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد فجر (کی اذان) تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے اور اسی نماز کو لوگ عتمہ بھی کہتے تھے۔ آپ ہر دو رکعات پر سلام پھیرتے تھے اور ایک وتر پڑھتے تھے۔الخ [صحيح مسلم 736/122]
➋ اس حدیث اور دیگر متواتر احادیث سے ایک رکعت وتر کا جواز صراحت سے ثابت ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک رکعت وتر کا ثبوت قولاً و فعلاً دونوں طرح ثابت ہے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري:969 وصحيح مسلم:751-745]
➍ سیدنا ابوایوب الانصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وتر حق ہے، جو چاہے پانچ وتر پڑھے، جو چاہے تین وتر پڑھے اور جو چاہے ایک وتر پڑھے۔ [سنن النسائي 239/2 ح 1713، وسندہ صحیح]
➎ سلف صالحین میں سے سیدنا سعد بن ابی وقاص، سیدنا معاویہ بن ابی سفیان اور سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہم وغیرہم سے ایک وتر پڑھنا ثابت ہے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري:6365، 3764، 3765، شرح معاني الآثار للطحاوي 294/1 وسنن الدارقطني 34/2 ح 1657، وسندہ حسن وقال النيموي فى آثار السنن:604 وإسناد حسن]
➏ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی طرح تین وتر پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ دیکھئے: [صحيح ابن حبان، الاحسان 3420 وإسناده صحيح، المستدرك للحاكم 304/1 ونقل النيموي عن العراقي قال: إسناده صحيح/آثار السنن: 592]
سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما دو رکعت علیحدہ اور ایک رکعت علیحدہ پڑھتے تھے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري: 991]
● یہ حدیث مرفوع بھی ہے۔ دیکھئے: [ابن حبان الاحسان:2426 (2435)وسندہ حسن]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 35   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1602  
´قیام اللیل (تہجد) کا بیان۔`
سعد بن ہشام سے روایت ہے کہ وہ ابن عباس رضی اللہ عنہم سے ملے تو ان سے وتر کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا: کیا میں تمہیں اہل زمین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وتر کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے والے کے بارے میں نہ بتاؤں؟ سعد نے کہا: کیوں نہیں (ضرور بتائیے) تو انہوں نے کہا: وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں، ان کے پاس جاؤ، اور ان سے سوال کرو، پھر میرے پاس لوٹ کر آؤ، اور وہ تمہیں جو جواب دیں اسے مجھے بتاؤ، چنانچہ میں حکیم بن افلح کے پاس آیا، اور ان سے میں نے اپنے ساتھ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس لے چلنے کے لیے کہا، تو انہوں نے انکار کیا، اور کہنے لگے: میں ان سے نہیں مل سکتا، میں نے انہیں ان دو گروہوں ۱؎ کے متعلق کچھ بولنے سے منع کیا تھا، مگر وہ بولے بغیر نہ رہیں، تو میں نے حکیم بن افلح کو قسم دلائی، تو وہ میرے ساتھ آئے، چنانچہ وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہوئے، تو انہوں نے حکیم سے کہا: تمہارے ساتھ یہ کون ہیں؟ میں نے کہا: سعد بن ہشام ہیں، تو انہوں نے کہا: کون ہشام؟ میں نے کہا: عامر کے لڑکے، تو انہوں نے ان (عامر) کے لیے رحم کی دعا کی، اور کہا: عامر کتنے اچھے آدمی تھے۔ سعد نے کہا: ام المؤمنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں بتائیے تو انہوں نے کہا: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور پڑھتا ہوں، تو انہوں نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق سراپا قرآن تھے، پھر میں نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام اللیل کے متعلق پوچھنے کا خیال آیا، تو میں نے کہا: ام المؤمنین! مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام اللیل کے متعلق بتائیے، انہوں نے کہا: کیا تم سورۃ «يا أيها المزمل‏» نہیں پڑھتے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور پڑھتا ہوں، تو انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کے شروع میں قیام اللیل کو فرض قرار دیا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے ایک سال تک قیام کیا یہاں تک کہ ان کے قدم سوج گئے، اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کی آخر کی آیتوں کو بارہ مہینے تک روکے رکھا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کے آخر میں تخفیف نازل فرمائی، اور رات کا قیام اس کے بعد کہ وہ فرض تھا نفل ہو گیا، میں نے پھر اٹھنے کا ارادہ کیا، تو میرے دل میں یہ بات آئی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وتر کے متعلق بھی پوچھ لوں، تو میں نے کہا: ام المؤمنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وتر کے بارے میں بھی بتائیے تو انہوں نے کہا: ہم آپ کے لیے مسواک اور وضو کا پانی رکھ دیتے، تو اللہ تعالیٰ رات میں آپ کو جب اٹھانا چاہتا اٹھا دیتا تو آپ مسواک کرتے، اور وضو کرتے، اور آٹھ رکعتیں پڑھتے ۲؎ جن میں آپ صرف آٹھویں رکعت میں بیٹھتے، ذکر الٰہی کرتے، دعا کرتے، پھر سلام پھیرتے جو ہمیں سنائی دیتا، پھر سلام پھیرنے کے بعد آپ بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے، پھر ایک رکعت پڑھتے تو اس طرح کل گیارہ رکعتیں ہوئیں۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بوڑھے ہو گئے، اور جسم پر گوشت چڑھ گیا تو وتر کی سات رکعتیں پڑھنے لگے، اور سلام پھیرنے کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے، تو میرے بیٹے! اس طرح کل نو رکعتیں ہوئیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نماز پڑھتے تو آپ کو یہ پسند ہوتا کہ اس پر مداومت کریں، اور جب آپ نیند، بیماری یا کسی تکلیف کی وجہ سے رات کا قیام نہیں کر پاتے تو آپ (اس کے بدلہ میں) دن میں بارہ رکعتیں پڑھتے تھے، اور میں نہیں جانتی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا قرآن ایک رات میں پڑھا ہو، اور نہ ہی آپ پوری رات صبح تک قیام ہی کرتے، اور نہ ہی کسی مہینے کے پورے روزے رکھتے، سوائے رمضان کے، پھر میں ابن عباس رضی اللہ عنہم کے پاس آیا، اور میں نے ان سے ان کی یہ حدیث بیان کی، تو انہوں نے کہا: عائشہ رضی اللہ عنہا نے سچ کہا، رہا میں تو اگر میں ان کے یہاں جاتا ہوتا تو میں ان کے پاس ضرور جاتا یہاں تک کہ وہ مجھ سے براہ راست بالمشافہ یہ حدیث بیان کرتیں۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: اسی طرح میری کتاب میں ہے، اور میں نہیں جانتا کہ کس شخص سے آپ کی وتر کی جگہ کے بارے میں غلطی ہوئی ہے ۳؎۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1602]
1602۔ اردو حاشیہ:
➊ امام نسائی رحمہ اللہ کے اس فرمان میں اشارہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گیارہ رکعت وتر کے بیان میں کسی راوی سے خطا ہو گئی ہے کیونکہ یہاں دو رکعتوں کو ایک رکعت سے مقدم بیان کیا گیا ہے، حالانکہ صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق صحیح یہ ہے کہ آپ نو رکعتیں اس طرح پڑھتے کہ صرف آٹھویں رکعت پر بیٹھتے، پھر اللہ تعالیٰ کا ذکر فرماتے اور دعائیں کرتے، پھر سلام پھیرے بغیر کھڑے ہو جاتے اور نویں رکعت پڑھ کر بیٹھ جاتے اور ذکروددعا وغیرہ کے بعد آواز کے ساتھ سلام پھیرتے کہ ہمیں سنائی دیتا، پھر سلام کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے۔ اس طرح یہ گیارہ رکعتیں ہو گئیں۔ (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 746) کسی راوی سے تقدیم و تاخیر ہو گئی۔ آگے نو رکعت وتر کے بیان سے بھی اس غلطی کی نشان دہی ہوتی ہے کیونکہ وہاں مسلم کی روایت کی طرح دو رکعتوں کو ایک رکعت سے مؤخر بتایا گیا ہے اور یہی صحیح ہے۔
عین قرآن کے مطابق تھے۔ یعنی قرآن مجید میں جو اخلاق عالیہ فاضلہ تمام انبیاء و صلحا کے بیان کیے گئے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں وہ سب بدرجۂ اتم پائے جاتے تھے اور جن چیزوں سے قرآن مجید میں روکا گیا ہے، ان کی گرد بھی آپ کو نہیں پہنچتی تھی۔
➌ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بیان کے مطابق ایک سال کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی قیام اللیل کی فرضیت ساقط ہو گئی تھی، مگر قرآن مجید کے الفاظ میں دو امکان ہیں، ایک یہ کہ قیام اللیل صرف صحابہ سے ساقط کیا گیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بدستور فرض رہا لیکن یہ مؤقف درست نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض سفروں میں تہجد پڑھنا ثابت نہیں جیسا کہ ایک دفعہ سفر میں سیدنا بلال رضی اللہ عنہ بھی سوئے رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی، کسی کو جاگ نہ آئی، تہجد بروقت پڑھنا تو کجا، نمازفجر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج چڑھے پڑھی، اسی طرح مزدلفہ کی رات بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تہجد پڑھنا منقول نہیں۔ اس سے تہجد کی فرضیت کے قائلین کا مؤقف مل نظر ٹھہرتا ہے۔ دوسرے یہ کہ فرضیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ساقط کر دی گئی، جیسا کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے۔ واللہ اعلم۔
➍ قیام اللیل اور نماز وتر کوئی الگ الگ نمازیں نہیں بلکہ ایک ہی نماز کو وقت کی نسبت سے قیام اللیل کہا گیا اور رکعات کی تعداد کی نسبت سے وتر کہا گیا ہے۔ رمضان المبارک میں اسی کو تراویح اور عام دنوں میں اسی کو تہجد کہہ دیا جاتا ہے کیونکہ عام دنوں میں یہ نماز سونے کے بعد اٹھ کر پڑھی جاتی ہے اور تہجد کے معنی بھی نیند سے اٹھنا ہیں۔ تراویح اس کو پڑھنے کی کیفیت کے لحاظ سے کہا جاتا ہے، یعنی وقفے وقفے سے آرام کر کے پڑھنا۔ تراوی میں ہر چار رکعت کے بعد کافی وقفہ کیا جاتا ہے۔ اگرچہ آج کل یہ وقفہ تقریباً متروک ہو چکا ہے اور یہ ضروری بھی نہیں۔
➎ رات کو جو نفل نماز بھی پڑھی جائے گی، اس کی تعداد طاق ہونی چاہیے، پھر ان سب کو وتر ہی کہا جائے گا، البتہ اگر دن کو قضا کرنی ہو تو طاق کے بجائے جفت پڑھی جائے گی کیونکہ طاق نفل نماز رات کے ساتھ خاص ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دن کو گیارہ کے بجائے بارہ رکعت پڑھنا صریح دلیل ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ وتر نفل ہیں، فرض نہیں، نیز نفل کی بھی قضادی جا سکتی ہے۔
مجھے علم نہیں مقصود یہ ہے کہ عبادت کے ساتھ ساتھ اپنے جسم اور اس کے آرام و صحت کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے، ورنہ جسم عاجز آجائے گا، پھر نفل تو ایک طرف رہے فرض رہ جانے کی نوبت بھی آسکتی ہے۔
اگر میں ان کے پاس جاتا ہوتا دراصل اس وقت غلط فہمی کی وجہ سے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہن میں سیاسی اختلافات پیدا ہوچکے تھے جس نے ان کو ایک دوسرے سے دور کر دیا تھا۔ جنگ جمل اور جنگ صفین اسی دور کی تلخ یادیں ہیں۔ حضرت عائشہ، حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کے درمیان بھی ان اختلافات کی وجہ سے باہم شکر رنجی تھی، البتہ وہ سب نیک نیت تھے۔ رضوان اللہ علیہم اجمعین۔
➑ سلف صالحین ہر کام میں اسوۂ رسول تلاش کرتے تھے کہ ان کی اقتدا کریں۔ اس مقصد کے لیے وہ وقت بھی دیتے تھے اور علماء سے استفسار بھی کرتے اور اگر سفر کی ضرورت پیش آتی تو سفر بھی کرتے۔ رحمہ اللہ۔
➒ جس سے سوال پوچھا: جا رہا ہے اگر اس سے بڑا عالم موجود ہے تو اسے چاہیے کہ سائل کی اس کی طرف رہنمائی کرے کیونکہ دین خیرخواہی کا نام ہے۔
➓ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے کہ وہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے بارے میں زیادہ جانتی تھیں۔ (11)محبوب ترین عمل وہ ہے جس پر آدمی ہمیشگی کرے اگرچہ وہ کم ہی ہو۔ (12)ساری ساری رات عبادت میں گزار دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نہیں بلکہ اپنی آنکھوں، جسم اور اہل عیال کا بھی انسان پر حق ہے، البتہ کبھی کبھار یہ جائز ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1602   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 686  
´مؤذن کا امام کو نماز کی خبر دینے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے فارغ ہونے سے لے کر فجر تک گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے، ہر دو رکعت کے درمیان سلام پھیرتے، اور ایک رکعت وتر پڑھتے ۱؎ اور ایک اتنا لمبا سجدہ کرتے کہ اتنی دیر میں تم میں کا کوئی پچاس آیتیں پڑھ لے، پھر اپنا سر اٹھاتے، اور جب مؤذن فجر کی اذان دے کر خاموش ہو جاتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فجر عیاں اور ظاہر ہو جاتی تو ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے، پھر اپنے داہنے پہلو پر لیٹ جاتے یہاں تک کہ مؤذن آ کر آپ کو خبر کر دیتا کہ اب اقامت ہونے والی ہے، تو آپ اس کے ساتھ نکلتے۔ بعض راوی ایک دوسرے پر اس حدیث میں اضافہ کرتے ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 686]
686 ۔ اردو حاشیہ:
➊ اس حدیث میں امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ کے تین شاگرد ہیں: ابن ابی ذئب، یونس اور عمرو بن حارث۔ ظاہر ہے کہ جب تین شخص روایت بیان کریں تو ان میں کبھی کچھ نہ کچھ لفظی اختلاف ہو ہی سکتا ہے، چونکہ تینوں راوی ثقہ ہیں، لہٰذا متن پر کوئی منفی اثر مرتب نہ ہو گا۔
➋ گیارہ رکعت تہجد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمومی معمول تھا۔ کبھی کبھار آپ تیرہ رکعت بھی پڑھ لیتے تھے۔ ان میں دو رکعتیں عشاء کے بعد کی سنتیں ہوتیں، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم افتتاحی طور پر دو رکعات آغاز میں پڑھ لیتے جیسا کہ بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے۔ رمضان المبارک میں یہی گیارہ رکعت قیام رمضان یا تراویح بن جاتی تھیں، البتہ آپ انہیں لمبا کر لیتے تھے۔ آپ سے تراویح اور تہجد الگ الگ پڑھنا ثابت نہیں۔ یہ ایک ہی نماز ہے۔ عام حالت میں تہجد یا وتر اور رمضان میں تراویح۔
➌ سنت فجر کے بعد لیٹنا مسنون ہے، تہجد پڑھنے والا سنتوں کے بعد فجر کی نماز تک لیٹ سکتا ہے، مگر وضو کا خیال رہے۔
➍ ایک وتر باقی سے الگ پڑھنا جائز ہے۔ احناف تین رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کے قائل ہیں۔ اس روایت سے ان کے موقف کی تردید ہوتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 686   
  الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 19  
پہلے تشہد میں درود پڑھنا
------------------
سوال: کیا دونوں تشہدوں میں درود پڑھنا ضروری ہے، پہلے تشہد میں پڑھنے کی کیا دلیل ہے؟
جواب: ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيمًا» [الأحزاب: 56]
بیشک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی (آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر) درود وسلام بھیجو۔
اس آیت کریمہ کا حکم عام ہے اور یہ نماز کو بھی شامل ہے کیونکہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر سوال کیا کہ ہم نے سلام کہنا تو سیکھ لیا ہے، آپ ہمیں بتائیں کہ ہم صلاۃ کیسے پڑھیں اور بعض روایات میں نماز کی صراحت بھی آتی ہے، جیسا کہ سنن دارقطنی میں حدیث ہے:
«عَنْ أَبِيْ مَسْعُوْدٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ اَقْبَلَ رَجُلٌ حَتّٰي جَلَسَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ عِنْدَهُ فَقَالَ يَا رَسُوْلَ اللهِ! اَمَّا السَّلَامُ فَقَدْ عَرَفْنَاهُ فَكَيْفَ نُصَلِّيْ عَلَيْكَ اِذَا نَحْنُ صَلَّيْنَا فِيْ صَلَاتِنَا؟ فَقَالَ قُوْلُوْا اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰي . . . إلخ» [سنن دارقطني 355/1]
حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا، ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! سلام تو ہم نے جان لیا ہے مگر ہم آپ پر صلاۃ کیسے بھیجیں؟ جب ہم نماز پڑھ رہے ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم «اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰي . . . إلخ» کہو۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام تو پہلے ہی پڑھتے تھے لیکن جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس کے بعد انہوں نے سلام کے ساتھ صلاۃ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھ لی۔
مذکورہ بالا آیت سورۂ احزاب کی ہے جو 5ھ میں نازل ہوئی۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ و سلام پڑھنے کا حکم دیا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو تشہد میں سلام پہلے ہی پڑھتے تھے، اب انہوں نے اس کے ساتھ صلاۃ کا بھی اضافہ کر لیا، یعنی جہاں سلام پڑھنا ہے، اس کے ساتھ ہی صلاۃ پڑھنی ہے، یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ اگر ہم پہلے تشہد میں صرف سلام پڑھیں، صلاۃ نہ پڑھیں تو « ﴿وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا﴾ » پر تو عمل ہو گا لیکن « ﴿صَلُّوْا عَلَيْهِ﴾ » پر عمل نہیں ہو گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آخری تشہد سے پہلے تشہد میں صلاۃ پڑھنا صحیح حدیث سے ثابت ہے۔
سعد بن ہشام سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام اللیل کے متعلق روایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں:
«فَقُلْتُ یَا اُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ! اَنْبِئِیْنِيْ عَنْ وِتْرِ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ كُنَّا نُعِدُّ لِرَسُوْلِ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سِوَاكَهُ وَطَھُوْرَهُ فَیَبْعَثُهُ اللهُ فِیْمَا شَاءَ اَنْ یَبْعَثَهُ مِنَ اللَّیْلِ فَیَتَسَوَّكُ وَیَتَوَضَّأُ ثُمَّ یُصَلِّيْ تِسْعَ رَكَعَاتٍ لَا یَجْلِسُ فِیْھِنَّ اِلَّاعِنْدَ الثَّامِنَةِ فَیَدْعُوْ رَبَّهُ وَ یُصَلِّيْ عَلٰی نَبِیِّهِ ثُمَّ یَنْھَضُ وَلَا یُسَلِّمُ ثُمَّ یُصَلِّيْ التَّاسِعَةَ فَیَقْعُدُ ثُمَّ یَحْمَدُ رَبَّهُ وَیُصَلِّيْ عَلٰی نَبِیِّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَیَدْعُوْ ثُمَّ یُسَلِّمُ تَسْلِیْمًا» [أبوعوانة 324/2، بيهقي 500/2، نسائي 1721]
میں نے کہا: اے ام المؤمنین! آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے متعلق بتائیں۔ تو انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مسواک اور طہارت کے لیے پانی تیار کر دیتے۔ رات کے وقت جب اللہ تعالیٰ چاہتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھا دیتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کرتے اور وضو کرتے پھر نو رکعتیں ادا کرتے، آٹھویں کے سوا کسی رکعت میں نہیں بیٹھتے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اپنے رب سے دعا کرتے اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے، پھر کھڑے ہو جاتے اور سلام نہیں پھیرتے تھے، پھر نویں رکعت ادا کر کے بیٹھتے اور اللہ کی حمد کر کے اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے اور دعاکرتے، پھر سلام پھیر دیتے۔
اس حدیث سے واضح ہو گیا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی آخری قعدے سے پہلے والے قعدے میں درود پڑھا ہے۔ لہٰذا ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق آخری قعدے سے پہلے والے قعدے میں بھی درود پڑھناچاہیے۔
   احکام و مسائل، حدیث/صفحہ نمبر: 193   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1177  
´ایک رکعت وتر پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر دو رکعت پہ سلام پھیرتے تھے، اور ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1177]
اردو حاشہ:
فائده:
اس قسم کی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ تین وتر بھی دو سلاموں کے ساتھ پڑھتے تھے۔
یعنی دو رکعت پڑھ کرسلام پھیر دیتے اور پھر ایک رکعت پڑھتے۔
اس اعتبارسے تین وتر دوسلام کے ساتھ پڑھنا افضل ہے۔
اگرچہ ایک سلام اور ایک تشہد کے ساتھ بھی جائز ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1177   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 440  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی تہجد کی کیفیت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے ان میں سے ایک رکعت وتر ہوتی۔ تو جب آپ اس سے فارغ ہو جاتے تو اپنے دائیں کروٹ لیٹتے ۱؎۔ [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 440]
اردو حاشہ:
1؎:
اضطجاع کے ثبوت کی صورت میں تہجد سے فراغت کے بعد داہنے کروٹ لیٹنے کی جو بات اس روایت میں ہے یہ کبھی کبھار کی بات ہے،
ورنہ آپ کی زیادہ تر عادت مبارکہ فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنے کی تھی،
اسی معنی میں ایک قولی روایت بھی ہے جو اس کی تائید کرتی ہے (دیکھئے حدیث رقم 420)

نوٹ:
(اضطجاع کا ذکر صحیح نہیں ہے،
صحیحین میں آیا ہے کہ اضطجاع فجر کی سنت کے بعد ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 440   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1334  
´تہجد کی رکعتوں کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو دس رکعتیں پڑھتے اور ایک رکعت وتر ادا کرتے اور دو رکعت فجر کی سنت پڑھتے، اس طرح یہ کل تیرہ رکعتیں ہوتیں۔ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1334]
1334. اردو حاشیہ: فائدہ: فجر کی سنتوں کو بھی بعض روایات میں رات کی نماز میں شمار کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ یہ اول وقت میں پڑھی جاتی تھیں اور وتروں کے ساتھ گویا متصل ہوتی تھیں۔ اس طرح رات کی نماز کی تعداد تیرہ ہوجاتی ہے۔ تاہم زیادہ روایات میں یہ تعداد گیارہ ہی بیان ہوئی ہے، یعنی ان میں فجر کی دوسنتیں شامل نہیں کی گئی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1334   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1342  
´تہجد کی رکعتوں کا بیان۔`
سعد بن ہشام کہتے ہیں کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، پھر میں مدینہ آیا تاکہ اپنی ایک زمین بیچ دوں اور اس سے ہتھیار خرید لوں اور جہاد کروں، تو میری ملاقات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند صحابہ سے ہوئی، ان لوگوں نے کہا: ہم میں سے چھ افراد نے ایسا ہی کرنے کا ارادہ کیا تھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے منع کیا اور فرمایا: تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے، تو میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وتر کے بارے میں پوچھا، آپ نے کہا: میں ایک ایسی ذات کی جانب تمہاری رہنمائی کرتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں لوگوں میں سب سے زیادہ جاننے والی ہے، تم ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاؤ۔ چنانچہ میں ان کے پاس چلا اور حکیم بن افلح سے بھی ساتھ چلنے کو کہا، انہوں نے انکار کیا تو میں نے ان کو قسم دلائی، چنانچہ وہ میرے ساتھ ہو لیے (پھر ہم دونوں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر پہنچے)، ان سے اندر آنے کی اجازت طلب کی، انہوں نے پوچھا: کون ہو؟ کہا: حکیم بن افلح، انہوں نے پوچھا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ کہا: سعد بن ہشام، پوچھا: عامر کے بیٹے ہشام جو جنگ احد میں شہید ہوئے تھے؟ میں نے عرض کیا: ہاں، وہ کہنے لگیں: عامر کیا ہی اچھے آدمی تھے، میں نے عرض کیا: ام المؤمنین مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا حال بیان کیجئے، انہوں نے کہا: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن تھا، میں نے عرض کیا: آپ کی رات کی نماز (تہجد) کے بارے میں کچھ بیان کیجئیے، انہوں نے کہا: کیا تم سورۃ «يا أيها المزمل» نہیں پڑھتے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں؟ انہوں نے کہا: جب اس سورۃ کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نماز کے لیے کھڑے ہوئے یہاں تک کہ ان کے پیروں میں ورم آ گیا اور سورۃ کی آخری آیات آسمان میں بارہ ماہ تک رکی رہیں پھر نازل ہوئیں تو رات کی نماز نفل ہو گئی جب کہ وہ پہلے فرض تھی، وہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وتر کے بارے میں بیان کیجئیے، انہوں نے کہا: آپ آٹھ رکعتیں پڑھتے اور آٹھویں رکعت کے بعد پھر کھڑے ہو کر ایک رکعت پڑھتے، اس طرح آپ آٹھویں اور نویں رکعت ہی میں بیٹھتے اور آپ نویں رکعت کے بعد ہی سلام پھیرتے اس کے بعد دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے، اس طرح یہ کل گیارہ رکعتیں ہوئیں، میرے بیٹے! پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سن رسیدہ ہو گئے اور بدن پر گوشت چڑھ گیا تو سات رکعتوں سے وتر کرنے لگے، اب صرف چھٹی اور ساتویں رکعت کے بعد بیٹھتے اور ساتویں میں سلام پھیرتے پھر بیٹھ کر دو رکعتیں ادا کرتے، اس طرح یہ کل نو رکعتیں ہوتیں، میرے بیٹے! اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی رات کو (لگاتار) صبح تک قیام ۱؎ نہیں کیا، اور نہ ہی کبھی ایک رات میں قرآن ختم کیا، اور نہ ہی رمضان کے علاوہ کبھی مہینہ بھر مکمل روزے رکھے، اور جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نماز پڑھتے تو اس پر مداومت فرماتے، اور جب رات کو آنکھوں میں نیند غالب آ جاتی تو دن میں بارہ رکعتیں ادا فرماتے۔ سعد بن ہشام کہتے ہیں: میں ابن عباس کے پاس آیا اور ان سے یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے کہا: قسم اللہ کی! حدیث یہی ہے، اگر میں ان سے بات کرتا تو میں ان کے پاس جا کر خود ان کے ہی منہ سے بالمشافہہ یہ حدیث سنتا، میں نے ان سے کہا: اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ آپ ان سے بات نہیں کرتے ہیں تو میں آپ سے یہ حدیث بیان ہی نہیں کرتا۔ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1342]
1342. اردو حاشیہ: فوائد و مسائل:
➊ جناب سعد بن ہشام جیسا انداز فکر و علم کہ انسان نفس ودنیا کی لذتوں سے بالکل ہی منقطع ہو جائے، اسوۂ رسول ﷺ اور عمل صحابہ کے خلاف ہے۔
➋ تحقیق مسائل میں سائل کو افضل واعلیٰ علمی شخصیت کی طرف تحویل (Refer) كرنا آداب علمی کا حصہ ہے۔
➌ رات کی نماز کے کئی نام ہیں۔ قیام اللیل، تہجد او روتر۔ رمضان کی مناسبت سے تراویح کا لفظ بعد کے زمانے میں مروج ہوا ہے۔
➍ رسو ل اللہﷺ کا خلق قرآن تھا، یعنی آپ اس کے اوامر و نواہی اور دیگر آداب کے مجسم نمونہ تھے۔
➎ تہجد اوروتر پڑھنے کے تقریباً تیرہ طریقے ہیں۔ دیکھئے [محلی:2/8
➋ 91/مسئلہ:29]

اور ان میں کوئی تعارض نہیں۔
➏ نورکعت مسلسل کی نیت باندھنا بالکل جائز اور سنت ہے۔ اس صورت میں آٹھویں رکعت پر تشہد پڑھ کر نویں رکعت پڑھی جائے او رپھر سلام پھیرا جائے۔ سات رکعت کی نیت ہو تو چھٹی پر تشہد کے لیے میٹھے اور ساتویں پر سلام پھیرے۔ تین اور پانچ رکعتوں میں صرف ایک آخری تشہد ہوتا ہے۔
➐ وتروں کے بعد کبھی کبھی دورکعت بھی مستحب ہیں۔
➑ تہجد قضا ہو جائے تو فجر کی نماز سے پہلے یا بعد وتر ادا کرلے۔ یا پھر دن میں بارہ رکعت پڑھ لی جائیں۔
➒ حضرت ابن عباس کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مابین ظاہر ہوئے تھے۔ واللہ اعلم، تاہم اس کے باوجود اعزاز شخصی اور جلالت علمی کا کامل اعتراف و اقرار ملحوظ خاطر تھا۔ رضي اللہ عنهم و أرضاهم
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1342