سنن نسائي
كتاب قيام الليل وتطوع النهار -- کتاب: تہجد (قیام اللیل) اور دن میں نفل نمازوں کے احکام و مسائل
17. بَابُ : الاِخْتِلاَفِ عَلَى عَائِشَةَ فِي إِحْيَاءِ اللَّيْلِ
باب: شب بیداری کے سلسلے میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت میں راویوں کے اختلاف کا بیان۔
حدیث نمبر: 1645
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ , وَمُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ، قال: سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ , يَقُولُ:" قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تَوَرَّمَتْ قَدَمَاهُ , فَقِيلَ لَهُ: قَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ , قَالَ:" أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا".
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (نماز میں) کھڑے رہتے یہاں تک کہ آپ کے دونوں پیر سوج جاتے، تو آپ سے عرض کیا گیا: اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دیئے ہیں (پھر آپ اتنی عبادت کیوں کرتے ہیں) تو آپ نے فرمایا: کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/التھجد 6 (1130)، تفسیر الفتح 2 (4836)، الرقاق 20 (6471)، صحیح مسلم/المنافقین 18 (2819)، سنن الترمذی/الصلاة 188 (412)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 200 (1419)، (تحفة الأشراف: 11498)، مسند احمد 4/251، 255 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1645  
´شب بیداری کے سلسلے میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت میں راویوں کے اختلاف کا بیان۔`
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (نماز میں) کھڑے رہتے یہاں تک کہ آپ کے دونوں پیر سوج جاتے، تو آپ سے عرض کیا گیا: اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دیئے ہیں (پھر آپ اتنی عبادت کیوں کرتے ہیں) تو آپ نے فرمایا: کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1645]
1645۔ اردو حاشیہ:
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کا سوج جانا سستی کو مستلزم نہیں کیونکہ سستی اور چستی کا تعلق دل اور دماغ کے ساتھ ہے۔
اگلے پچھلے گناہ یہ ایک فرضی چیز ہے۔ کہا گیا ہے نبوت سے قبل اگر کوئی کوتاہی ہوئی ہو۔ بعض نے اس سے ترک اولیٰ مراد لیا ہے جو آپ اپنی امت کی مصلحت کی خاطر کیا کرتے تھے، مثلاً: جنگ بدر کے قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دینا یا عبداللہ بن ابی کا جنازہ پڑھنا وغیرہ۔ اسے اجتہادی خطا سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔
شکرگزار بندہ یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پوچھ گچھ موقوف کر دی ہے تو میرا بھی فرض ہے کہ میں ہر دم اسی کو یاد کروں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انھی اداؤں نے آپ کو سیدالاولین والآخرین بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد ہی کی وجہ سے آپ مقام محمود پر فائز ہوں گے۔ (فداہ نفسی و روحی صلی اللہ علیہ وسلم)
➍ شکر جیسے زبان سے ادا ہوتا ہے عمل سے بھی ہوتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1645   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1419  
´نماز میں قیام لمبا کرنے کا بیان۔`
مغیرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے، یہاں تک کہ آپ کے پیروں میں ورم آ گیا، تو عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ بخش دئیے ہیں (پھر آپ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں (اللہ کا) شکر گزار بندہ نہ بنوں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1419]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
پیغمبرگناہ سے معصوم ہوتے ہیں۔
لیکن اگرفرض کرلیا جائے کہ کوئی گناہ سر زد ہوجائےگا تو اس کو پہلے سے معاف کرنے کا اعلان کردیا گیا۔
اس سے مقصد رسول اللہ ﷺ کے بلند مقام ومرتبہ کا اظہار ہے یا گناہ سےمراد وہ اعمال ہوسکتے ہیں۔
جہاں نبی اکرم ﷺ نے کسی مصلحت کے بنا پر افضل کام کو چھوڑ کر دوسرا جائز کام اختیار فرمایا۔

(2)
اللہ تعالیٰ کسی بندے کو اعلیٰ مقام دے تو اس کو چاہیے کہ شکر کا زیادہ اہتما م کرے۔

(3)
شکر کا بہترین طریقہ عبادت میں محنت کرنا ہے۔
خصوصاً نماز او ر تلاوت قرآن مجید میں۔
نماز تہجد میں یہ دونوں چیزیں ہوتی ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1419   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 412  
´نماز میں خوب محنت اور کوشش کرنے کا بیان۔`
مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے نماز پڑھی یہاں تک کہ آپ کے پیر سوج گئے تو آپ سے عرض کیا گیا: کیا آپ ایسی زحمت کرتے ہیں حالانکہ آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ بخش دئیے گئے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ ۲؎۔ [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 412]
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی زیادہ دیر تک نفل نماز پڑھنے کا بیان۔

2؎:
تو جب بخشے بخشائے نبی اکرم ﷺ بطور شکرانے کے زیادہ دیر تک نفل نماز پڑھا کرتے تھے یعنی عبادت میں زیادہ سے زیادہ وقت لگاتے تھے تو ہم گنہگار اُمتیوں کو تو اپنے کو بخشوانے اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کی طرف مسنون اعمال کے ذریعے اور زیادہ دھیان دینا چاہئے۔
البتہ بدعات سے اجتناب کرتے ہوئے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 412