صحيح البخاري
كِتَاب الْمُزَارَعَةِ -- کتاب: کھیتی باڑی اور بٹائی کا بیان
21. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْغَرْسِ:
باب: درخت بونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2349
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ:" إِنَّا كُنَّا نَفْرَحُ بِيَوْمِ الْجُمُعَةِ، كَانَتْ لَنَا عَجُوزٌ تَأْخُذُ مِنْ أُصُولِ سِلْقٍ لَنَا كُنَّا نَغْرِسُهُ فِي أَرْبِعَائِنَا، فَتَجْعَلُهُ فِي قِدْرٍ لَهَا، فَتَجْعَلُ فِيهِ حَبَّاتٍ مِنْ شَعِيرٍ، لَا أَعْلَمُ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: لَيْسَ فِيهِ شَحْمٌ وَلَا وَدَكٌ، فَإِذَا صَلَّيْنَا الْجُمُعَةَ زُرْنَاهَا فَقَرَّبَتْهُ إِلَيْنَا، فَكُنَّا نَفْرَحُ بِيَوْمِ الْجُمُعَةِ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ، وَمَا كُنَّا نَتَغَدَّى وَلَا نَقِيلُ إِلَّا بَعْدَ الْجُمُعَةِ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یعقوب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے، ان سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہ جمعہ کے دن ہمیں بہت خوشی (اس بات کی) ہوتی تھی کہ ہماری ایک بوڑھی عورت تھیں جو اس چقندر کو اکھاڑ لاتیں جسے ہم اپنے باغ کی مینڈوں پر بو دیا کرتے تھے۔ وہ ان کو اپنی ہانڈی میں پکاتیں اور اس میں تھوڑے سے جَو بھی ڈال دیتیں۔ ابوحازم نے کہا میں نہیں جانتا کہ سہل نے یوں کہا نہ اس میں چربی ہوتی نہ چکنائی۔ پھر جب ہم جمعہ کی نماز پڑھ لیتے تو ان کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ وہ اپنا پکوان ہمارے سامنے کر دیتیں۔ اور اس لیے ہمیں جمعہ کے دن کی خوشی ہوتی تھی۔ اور ہم دوپہر کا کھانا اور قیلولہ جمعہ کے بعد کیا کرتے تھے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2349  
2349. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: ہمیں جمعے کے دن بہت خوشی ہوا کر تی تھی کیونکہ ہماری ایک بڑھیا تھی جوہمارے لیے چقندر کی جڑیں لیتی جنھیں ہم کھیتوں میں نالیوں کے کنارے بودیا کرتے تھے۔ وہ ایک ہنڈیا میں ڈال کر ان کو پکاتی، اوپر سے جو کے کچھ دانے اس میں ڈال دیتی۔ اس میں چربی یاچکنائی نہیں ہوتی تھی۔ ہم جب نماز جمعہ پڑھ کر اس کے پاس جاتے تو وہ ہمارے لیے یہ پکوان رکھ دیتی۔ اس کھانے کے باعث ہمیں جمعے کے دن بہت خوشی ہوا کرتی تھی۔ ہم جمعہ کی نماز کے بعد ہی کھانا کھاتے اور قیلولہ کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2349]
حدیث حاشیہ:
صحابہ کرام کا اپنے باغوں کی مینڈوں پر چقندر لگانا مذکور ہے۔
اسی سے باب کا مضمون ثابت ہوا نیز اس بوڑھی اماں کا جذبہ خدمت قابل رشک ثابت ہوا۔
جو اصحاب رسول کریم ﷺ کی ضیافت کے لیے اتنا اہتمام کرتی اور ہر جمعہ کو اصحاب رسول ﷺ کو اپنے ہاں مدعو فرماتی تھی۔
چقندر اورجو، ہر دو کا مخلوط دلیہ جو تیار ہوتا اس کی لذت اور لطافت کا کیا کہنا۔
بہرحال حدیث سے بہت سے مسائل کا استنباط ہوتا ہے۔
یہ بھی کہ جمعہ کے دن مسنون ہے کہ دوپہر کا کھانا اور قیلولہ جمعہ کی نماز کے بعد کیا جائے۔
خواتین کا بوقت ضرورت اپنے کھیتوں پر جانا بھی ثابت ہوا۔
مگر پردہ شرعی ضروری ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2349   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2349  
2349. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: ہمیں جمعے کے دن بہت خوشی ہوا کر تی تھی کیونکہ ہماری ایک بڑھیا تھی جوہمارے لیے چقندر کی جڑیں لیتی جنھیں ہم کھیتوں میں نالیوں کے کنارے بودیا کرتے تھے۔ وہ ایک ہنڈیا میں ڈال کر ان کو پکاتی، اوپر سے جو کے کچھ دانے اس میں ڈال دیتی۔ اس میں چربی یاچکنائی نہیں ہوتی تھی۔ ہم جب نماز جمعہ پڑھ کر اس کے پاس جاتے تو وہ ہمارے لیے یہ پکوان رکھ دیتی۔ اس کھانے کے باعث ہمیں جمعے کے دن بہت خوشی ہوا کرتی تھی۔ ہم جمعہ کی نماز کے بعد ہی کھانا کھاتے اور قیلولہ کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2349]
حدیث حاشیہ:
شجرکاری ہمیشہ سے انسان کا محبوب مشغلہ ہے۔
درخت لگانے اور کھیتی باڑی کرنے کا ایک ہی حکم ہے۔
کسان کھیتوں کے کناروں پر درخت لگاتے ہیں، کھیتوں کے اندر علاقہ کی فصل کاشت کی جاتی ہے، کھیتوں کو پانی دینے کے لیے نالیاں بنائی جاتی ہیں، ان نالیوں کا اردگرد اکثر سیراب رہتا ہے، اس لیے وہاں مناسب سبزیاں کاشت کی جاتی ہیں یا موسمی پودے لگا دیے جاتے ہیں۔
حدیث میں ذکر ہے کہ اس وقت نالیوں کے کناروں پر چقندر کاشت کی جاتی تھی جس کا سالن بہت پسندیدہ ہوتا ہے اور اسے بہترین ڈش کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2349